افغانستان میں برطانوی افواج کے جنگی جرائم کے بارے میں جواب مانگتے سوالات

افغانستان

?️

سچ خبریں:افغانستان میں برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں کیے جانے والے جرائم کو ایک حادثاتی واقعہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ واقعہ تاریخ کی گواہی کے مطابق اس ملک کے حکمران طبقے میں ایک گہری سوچ سے وجود میں آتا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی میں برطانوی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں درجنوں غیر مسلح افغانوں کی ہلاکت کے بارے میں اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد برطانوی حکام نے اس سلسلے میں تحقیقات شروع کی ہیں، اگرچہ مغرب بالخصوص برطانیہ نے افغانستان پر 20 سال تک قبضہ کر رکھا تھا لیکن اس تحقیق کا محور ایک دہائی قبل یعنی 2010 اور 2013 کے درمیان ہے،2010 سے 2013 تک جب لیبر پارٹی اقتدار میں تھی، موجودہ مرحلے پر قدامت پسند حکومت کی طرف سے اس طرح کے کیس کو دوبارہ کھولنا، رائے عامہ کی نظر میں قدامت پسند پارٹی کی 2024 کے انتخابی چالوں سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف تحققات مغرب ممالک کو انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے ممالک قرار دیتی ہے جو اپنی افواج کے ہاتھوں کیے جانے والے جنگی جرائم کے کیس کی تحقیقات کرنے کی کوشش کرتے ؤ تاکہ وہ ان جرائم کو منظم نوعیت سے کم کر کے ایک فرد تک پہنچا سکے اور اسے پیوٹن کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کی کاروائی کو جائز قرار دینے کے لیے استمعال کر سکیں، تاہم، افغانستان میں برطانوی افواج کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کا رجحان اور لندن نے ان سالوں کے دوران جس طرح سے ان کا مقابلہ کیا ہے اس سے کئی اہم نکات ظاہر ہوتے ہیں۔
1۔ انگلستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر ہمیشہ خود کو انسانیت کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا ہے اور اسی بہانے وہ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن، یوکرین وغیرہ سمیت کئی ممالک کے ساتھ جنگ میں داخل ہو چکا ہے،اس کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت نے اسی بہانے عوام کے تحفظ کی آڑ میں دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جس کا اندازہ ایران میں گزشتہ برس رونما ہونے واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے،یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ رویے کسی پارٹی کی کارکردگی سے نہیں بلکہ انگلستان کے طویل مدتی ڈھانچے میں ادارہ جاتی رویے سے ماخوذ ہیں اور کوئی بھی تحریک ان کی تشکیل میں اپنی ذمہ داری سے گریز نہیں کر سکتی۔

افغانستان میں برطانوی فوجیوں کے جرائم کے بارے میں شائع شدہ رپورٹس کے سامنے دو آپشنز ہوتے ہیں؛ یا تو انگلستان کے سیاستدان اور سکیورٹی اور نگرانی کے ادارے اتنے کمزور ہیں کہ وہ افغانستان میں اپنی افواج کے کاموں کی نگرانی اور پیروی کرنے کے قابل نہیں رہے، یا پھر انہیں سب کچھ معلوم تھا اور انہوں نے جان بوجھ کر اسے چھپایا؛یقیناً برطانوی انٹیلی جنس اور نگرانی کے آلات کی طویل تاریخ کے ساتھ ساتھ جدید آلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان جرائم کے بارے میں برطانوی حکومت کی پردہ پوشی کا آپشن زیادہ نمایاں ہے۔

یاد رہے کہ یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب عالمی اداروں نے جنگ زدہ ممالک میں برطانوی افواج کے رویے کے بارے میں بارہا توجہ دلائی تھی لیکن لندن نے ان انتباہات کو محض نظر انداز کیا اور یہاں تک کہ انگلینڈ کی ملکہ نے اس وقت انگلستان کے جنگجو وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو نائٹ کا خطاب دیا، تاہم انگلینڈ کے بادشاہ کے بیٹے شہزادہ ہیری کی متنازعہ یادداشتوں کے کچھ حصوں میں، جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے، انگلینڈ پر حکومت کرنے والی انسان دشمن سوچ کے گوشے واضح طور پر پیش کیے گئے ہیں،شہزادہ ہیری نے اس کتاب کے ایک حصے میں کہا ہے کہ 25 افغانوں پر بمباری اور قتل عام کے دوران میں نے محسوس نہیں کیا کہ وہ انسان ہیں بلکہ میں انہیں شطرنج کے مہروں کی طرح زمین پر گرتے دیکھ رہا تھا، یقیناً افغانستان میں انگریزوں کے جرائم کو حادثاتی واقعہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ واقعہ اس ملک کے حکمران طبقے کی گہری سوچ اور اس ملک کے سیاست دانوں میں سزا دینے کے عزم کے فقدان کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔

یاد رہے کہ انگلستان کے جرائم کی جہتوں کی نشاندہی کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے لیے ایک آزاد عالمی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے،جب کہ برطانوی حکام نے افغانستان میں اپنی افواج کے جرائم کی تحقیقات کے لیے 18 ماہ کی ضرورت کی بات کی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ عراق میں اپنے جرائم کو چھپانے کے طریقہ کار کو دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور شواہد کو صاف کرنے کے لیے وقت خرید رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ مغربی میڈیا بشمول بی بی سی جو جھوٹی اور جانبدارانہ خبریں پھیلا کر مختلف ممالک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہیں، برطانوی فوج اور سیاستدانوں کے کھلم کھلا اور منظم جنگی جرائم س متعلق کیا رویہ اپنائے گا؟جبکہ ابھی تک یہ خاموش ہے اور معمولی خبریں شائع کر کے ان جرائم کی جہت کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ دنیا کے مختلف خطوں میں ان ممالک کے فوجیوں کی جانب سے کیے جانے والے بے مثال جرائم کی پردہ پوشی اور بدنیتی پر مبنی رویے کی بنا پر اپنی پیشہ ورانہ ساکھ کے لیے سنگین چیلنجز کا سامنا کرنے والا مغربی میڈیا یہاں بھی برطانوی فوج کے ظلم کی حمایت کرے گا۔

مشہور خبریں۔

عراقی عوام کا سویڈن کو سبق

?️ 20 جولائی 2023سچ خبریں: عراق میں سویڈن کے سفارت خانے پر حملہ مقدس کتابوں

مضبوط معیشت کے بغیر قوم اہداف حاصل نہیں کرسکتی:آرمی چیف

?️ 5 اکتوبر 2022واشنگٹن: (سچی خبریں) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ مسلح

غزہ میں جنگ بندی کے امریکی منصوبے کی حقیقیت ؛عطوان کی زبانی

?️ 1 جون 2025 سچ خبریں:عبدالباری عطوان نے جنگ بندی کے امریکی منصوبے کو غزہ

مصر غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور امریکہ کا ایجنٹ : لاپیڈ

?️ 27 فروری 2025سچ خبریں: Maariv اخبار نے اپنے انفارمیشن بیس پر ایک خبر میں

پاکستان کا موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے فوری نمٹنے کا مطالبہ

?️ 13 دسمبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) اٹارنی جنرل برائے پاکستان (اے جی پی) منصور

ہم غزہ میں دشمن قوتوں کے بے صبری سے منتظر ہیں

?️ 25 اکتوبر 2023سچ خبریں:اسلامی جہاد فلسطین کی عسکری شاخ سرایا القدس کے ترجمان ابو

گڈگورننس اور سروس ڈلیوری کیلئے بڑے پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہیں۔ سرفراز بگٹی

?️ 9 جولائی 2025کوئٹہ (سچ خبریں) وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ

ٹک ٹاک پر 30 منٹ دورانیے کی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی اجازت دیے جانے کا امکان

?️ 1 فروری 2024سچ خبریں: شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک کی جانب سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے