اسلام آباد: (سچ خبریں) گزشتہ ہفتے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے وفاقی حکومت کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کرنے کے لیے ایک اور کوشش کی، اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو حکومت مخالف تحریک کا حصہ بنالیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مری سے مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی سے یہ ملاقات تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے خط کے بعد ہوئی ہے، جس میں عوام اور فوج کے درمیان مبینہ اعتماد کی کمی کو دور کرنے کے لیے ’اصلاحی اقدامات‘ کی تجویز دی گئی تھی۔
پی ٹی آئی نے جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کو بھی حکومت مخالف اتحاد کا حصہ بننے پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی نے ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے نام سے کثیر الجماعتی اپوزیشن اتحاد تشکیل دیا تھا، جس میں سنی اتحاد کونسل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت مسلمین شامل تھیں۔
پی ٹی آئی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گرینڈ الائنس کی قیادت شاہد خاقان عباسی کریں گے، یہ فیصلہ بنی گالہ میں سابق اسپیکر اسد قیصر کی رہائش گاہ پر اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے جمع ہونے کے بعد کیا گیا۔
اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا، ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ راجا ناصر عباس، شاہد خاقان عباسی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور دیگر نے شرکت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو حکومت کے خلاف تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے اسٹیئرنگ کمیٹی کی سربراہی کرنے کے لیے کہا گیا تھا، اور سابق وزیراعظم کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا تھا، کیونکہ وہ غیر متنازع شخص ہیں، کمیٹی کی تشکیل ابھی باقی ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا، اور حکومت پر زور دیا کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کمیشن کے تحت آزادانہ اور شفاف انتخابات کرائے۔
عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ دہشت گردی، عدم استحکام اور سیاسی افراتفری کے مسائل کو صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
اجلاس میں شریک فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس عمران خان کی منظوری کے بعد ہوا، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف کوئی بیان نہ دیں۔
واضح رہے کہ حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کی صورت میں مولانا فضل الرحمٰن اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہی وہ وقت ہے جب پی ٹی آئی نے ڈیرہ اسمٰعیل خان سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار سیاست دان سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے سیاسی جگہ کھو دی ہے، اور پی ٹی آئی کو مینڈیٹ سے محروم کرکے اسے اسٹیبلشمنٹ کو دے دیا ہے، موجودہ حکومت اتنی بے بس ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین سے پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات کا انتظام بھی نہیں کرسکی۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ اجلاس کے دوران الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) میں ترمیم اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے معاملے پر بالترتیب میڈیا اور وکلا برادری کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ شرکا نے کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافے پر بھی تشویش کا اظہار کیا، اور اس سلسلے میں حکمت عملی تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔
دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے مذاکرات سے دستبرداری اور آرمی چیف کو خط لکھنے پر پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ لوگ اس طرح کے خطوط لکھ کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
عرفان صدیقی نے اس بات پر زور دیا کہ عمران خان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کی جماعت کے پاس آگے بڑھنے کا واحد راستہ سنجیدہ مذاکرات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بے معنی خطوط لکھنے سے انہیں ماضی میں کوئی فائدہ نہیں ہوا، اور نہ ہی آئندہ ہوگا، عمران خان نے اسی طرح کا خط آرمی چیف کو تب بھی بھیجا تھا جب عارف علوی صدر تھے۔