اسلام آباد (سچ خبریں) اسلام آباد میں رحمتہ اللعالمین اسکالر شپس پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےعمراں خان نے کہا کہ اسکالر شپس پروگرام کا رحمتہ اللعالمین اس لیے ہے کیوں کہ کہ نبیﷺ صرف مسلمانوں نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے اور یہ پروگرام بھی تمام پاکستانیوں کے لیے ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مسجد سے باہر اپنی زندگیاں ری ماڈل کرنا ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے وفاقی حکومت ہر سال 5 ارب 50 کروڑ روپے 70 ہزار اسکالر شپس دینےکے لیے خرچ کرے گی، پاکستان میں کبھی اس سطح کی اسکالر شپس نہیں دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ 5 سال کے عرصے میں حکومت اس پروگرام پر 28 ارب روپے خرچ کرے گی اور ساڑھے 3 لاکھ اسکالر شپس دے گی جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سالانہ تقریباً 15 ہزار اسکالر شپس دینے کے لیے ایک ارب روپے کی رقم خرچ کرے گی جسے 75 اور 72 ہزار تک بڑھایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے نبیﷺ جیسا انسان دنیا میں نہ کبھی پیدا ہوا نہ ہوگا کیوں کہ کسی بھی انسان کی وہ کامیابیاں نہیں ہیں جو ان کی ہیں اور دنیا کی عظیم ترین ہستیوں میں انہیں سب سے عظیم انسان کہا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے ملک میں یہ کوشش ہوتے کبھی نہیں دیکھی کہ دنیا کی تاریخ کے عظیم انسان کو مسجد سے نکال کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآن پاک میں اللہ حکم دیتا ہے کہ ان کی زندگی سے سیکھو، ان کے سنت پر چلو کیوں کہ قرآن ہمارے لیے ہدایت کی کتاب ہے اس سے ہماری زندگی بہتر ہوگی اس سے ہمیں فائدہ ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم پانچوں وقت نماز پڑھتے ہیں اور اللہ سے وہ راستہ مانگتے ہیں جو ہمیں نعمتیں بخشے گا خوشیاں دے گا سکون دے گا لیکن جو سب سے عظیم انسان اس راستے پر تھے، میں نے دیکھا کہ ان کی زندگی کا ہماری زندگی سے تعلق ہی نہیں ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسجد سے باہر اپنی زندگیاں ری ماڈل کرنا ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا کہ جب بھی اسلامی معاشرہ اسلام کے ان اصولوں پر واپس گیا ہے جو ریاست مدینہ میں بنائے گئے تھے تو وہ معاشرہ اوپر آیا ہے یعنی وہ نبی ﷺ کی سنت پر چل کر اوپر گئے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کا مقصد ہے کہ نبی ﷺ کی زندگی کو عام لوگوں کی زندگیوں میں لے کر آئیں اور ان کی سنت پر چلنے کی کوشش کریں جو انہوں نے مدینہ کی ریاست میں قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست قائم کی لیکن اس کے ساتھ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی۔
ان کا کہنا تھا کہ غریب لوگ تھے اور جنگ بدر کے دوران سب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے لیکن جب کفار کے قیدی پکڑے گئے تو ان سے رہائی کے بدلے پیسے لینے کے بجائے تعلیم کو ترجیح دی اور کہا کہ جو شخص 10 مسلمانوں کو پڑھا لکھا دے گا وہ آزاد ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم، سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ کا ترقی پذیر ممالک کیلئے قرضوں میں ریلیف کا مطالبہ
عمران خان نے کہا کہ تعلیم کے حصول کو عبادت کا حصہ بنادیا گیا تو کئی صدیوں تک مسلمان سائنسدان ایسے ہی نہیں تھے اور خلیفہ مامون رشید نے دارالحکمت قائم کیا جہاں دنیا کی کتابیں ترجمہ کی گئیں، مسلمان رہنما تھے جس کی بنیاد مدینہ میں رکھی گئی۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس کے بعد پھر یہ بھی دیکھا کہ ہم نیچے کیسے گئے اور یورپ آگے کیسے گیا، انہوں نے تعلیم اور تحقیق پر زور دیا۔
وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر یہ بات دہرائی کہ جس معاشرے میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہ تباہ ہوجاتے ہیں، کوئی قوم اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتی جو طاقتور کو قانون کے نیچے نہ لے کر آئے۔
انہوں نے کہا کہ غریب آدمی جتنی بھی چوری کرلے وہ لندن میں فلیٹ نہیں خرید سکتا ہے، یو این کی ایک رپورٹ ہے کہ ہر سال غریب ممالک سے ایک ہزار ارب روپے باہر جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ نہیں لے کر جاتے جو جیلوں میں ہیں یہ طاقتور لوگ ہوتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ دوسری چیز فلاحی ریاست ہے جب ملک عام آدمی کی بنیادی ضرورت پوری کرے گا اور اسے فائدہ پہنچائے گا تو وہ کہے گا کہ یہ میرا بھی ملک ہے۔
تیسری چیز تعلیم ہے کیوں کہ علم کے بغیر کبھی بھی کوئی قوم اوپر نہیں جاسکتی، آج ہم دیکھتے ہیں دنیا میں تھوڑے سے یہودی ہیں لیکن تعلیم، فنانس، میڈیا پر ان کا غلبہ ہے کیوں کہ انہوں نے شروع سے اس بات کا احساس کیا کہ ہم تعداد میں کم ہیں اس لیے علم سیکھنا چاہیے اور وہ اپنی صلاحیت سے پڑھ لکھ کر ہر جگہ موجود ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ان کی تعداد کم ہونے کے بجائے انہیں دیکھیں کہ کہاں ہیں اور ہم مسلمانوں کی تعداد دیکھیں اور ہمارا اثر رسوخ دیکھیں اس لیے پاکستان کی بنیاد ہمیں ان اصولوں پر رکھنی ہے۔