اسلام آباد: (سچ خبریں) مدارس رجسٹریشن بل کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو ملاقات کی دعوت دے دی۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمٰن کو آج (جمعہ) دوپہر تین بجے ملاقات کے لیے مدعو کرلیا۔
اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات وزیراعظم ہاؤس میں ہوگی جبکہ مولانا فضل الرحمٰن اتحاد تنظیمات مدارس کا مؤقف وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے۔
واضح رہے کہ 16 دسمبر کو اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے مطالبہ کیا تھا کہ مدارس بل باقاعدہ ایکٹ بن چکا ہے قانون کے مطابق بلاتاخیر اس کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیا جائے۔
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن و دیگر علما کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کی سپریم کونسل کا اجلاس جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اجلاس میں موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس کے بعد مندرجہ ذیل قرار داد اتفاق رائے سے منظور ہوئی، قرار داد کا متن ہے کہ سوسائٹیز رجسٹرین ایکٹ کے تحت ایکٹ ترمیمی سوسائٹیز بل مورخہ 20-21 اکتوبر 2024 کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا اور اسی روز قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دستخط سے حتمی منظوری کے لیے ایوان صدر کو ارسال کر دیا گیا۔
مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 28 اکتوبر 2024 کو صدر کی جانب سے غلطی کی نشاندہی کی گئی، اسپیکر قومی اسمبلی نے آئین و قانون کے تحت اسے قلمی غلطی گرادانتے ہوئے تصیح کردی اور تصیح شدہ ترمیمی بل مورخہ یکم نومبر 2024 کو ایوان صدر ارسال کر دیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اسے صدر نے قبول کرتے ہوئے اس پر زور نہیں دیا، بعد ازاں صدر کی طرف سے 10 دن کے اندر مذکورہ ترمیمی بل پر کوئی اعتراض نہیں ہوا، البتہ 13 نومبر 2024 کو نئے اعتراضات لگادیے گئے جو کہ میعاد گزرنے کی وجہ سے غیر مؤثر تھے، نیز ایکٹ کے بعد دوبارہ اعتراض بھی نہیں لگایا جا سکتا تھا، لہذا یہ بل اب قانونی شکل اختیار کر چکا ہے۔
مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ حوالے کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی نظیر موجود ہے، نیز اسپیکر نے اس بات کا اعتراض کیا ہے ان کے نزدیک یہ باقاعدہ ایکٹ بن چکا ہے اور انہیں صرف ایک ہی اعتراض موصول ہوا تھا، ہمارا مطالبہ ہے کہ قانون کے مطابق بلاتاخیر اس کا گزیٹ نوٹی فکیشن جاری کیا جائے تاکہ فوری طور پر اس پر عمل درآمد شروع ہو۔
انہوں نے کہا تھا کہ شریعت کا حکم ہے کہ حسن ظن سے کام لیا جائے، جو لوگ اقتدار و اختیار کے مالک ہوتے ہیں، ان سے ہمیشہ معقولیت، انصاف اور توازن کی امید کی جاتی ہے، لہٰذا اس وقت تک ہماری پوری سپریم کونسل کی رائے ہے کہ حکومت وقت ہماری اس قرداد کو معقول گردانتے ہوئے اسے تسلیم کرے گی اور اس پر عملدرآمد کرے گی۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا تھا کہ اگر اس کے برعکس کوئی صورتحال پیش آئی تو ہم بلاتاخیر مل بیٹھیں گے اور اس کے بعد کا لائحہ عمل اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔
12 دسمبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ مدارس بل ایکٹ بن چکا، نوٹی فکیشن جاری کیا جائے، دینی مدارس کے معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیا گیا ہے۔
13 دسمبر کو مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سامنے آئے تھے۔
صدر مملکت نے کہا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔
انہو ں نے کہا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔
12 دسمبر کو جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مدارس بل منظور نہ کیے جانے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا عندیہ دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اگر مدارس کے حوالے سے یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم اسلام آباد آئیں گے، آپ گولیاں چلائیں گے اور آپ کی گولیاں ختم ہوجائیں گی، ہم واپس نہیں جائیں گے۔