سچ خبریں:اسرائیلی فوج کے ایک سابق افسر نے حماس کو “تل ابیب کا” بدترین دشمن “قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کے خلاف حالیہ جنگ میں کچھ حاصل نہیں کیا ہے نیز اس تحریک کی طاقت میں اضافے کا انتباہ دیا ہے۔
ایک اسرائیلی سابق اعلیٰ عہدے دار نے کہا کہ حماس سمیت مزاحمتی گروپوں کے ساتھ اسرائیلی حکومت کی حالیہ لڑائی میں فوجی ، میڈیا یا نفسیاتی جنگ میں سے کسٰ میں کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے،اسرائیلی فوج کی انٹلی جنس سروس کے سابق سربراہ عاموس یادلین نے ہفتے کے روز کہا کہ غزہ میں حالیہ جنگ بنیادی طور پر دفاع پر مرکوز تھی اور یہ کہ عسکری طور پر یا میڈیا اور نفسیات کے معاملے میں ہمیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
صیہونی افسر نے حالیہ لڑائی کے بعد صیہونی حکومت کے نئے حالات اور مزاحمتی گروپوں کے خلاف ایک نیا مساوات پیدا کرنے کی حکومت کی کوششوں کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ تل ابیب سڈیروت کی طرح ہے اور آگ لگانے والےغبارے میزائلوں کی طرح ہیں ،ہمیں ان مسائل کو سرحدوں اور غزہ کے اقتصاد سے جوڑنا چاہیےلیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ حماس اس طرح کی شرطوں کو قبول کرے۔
یادلین نے یحیی سنوار جیسے کمانڈروں کو بھی ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ سنوار ایک ایسے شخص ہیں جو غزہ کی پٹی کے لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتےہیں اور خطے کی خوشحالی اور معاشی ترقی کے معاہدے تک پہونچنے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ ایک نئے تنازعہ کی قیادت کر رہے ہیں لہذ ہمیں انھیں قیادت میں سب سے اوپر رہنے کی اجازت نہیں دنیا چاہئے۔
صیہونی حکومت کے سابق عہدیدار نے حماس کو شکست دینے میں صیہونی حکومت کی ناکامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم حماس کو شکست دینے یا کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،چونکہ ہر محاذ آرائی کے دور میں حماس مضبوط تر ہوتا جارہی ہے ، اسی وجہ سے ، میں تجویز کرتا ہوں کہ حماس کو اپنی پوری طاقت سے نشانہ بنایا جائے ،اگر یہ تحریک تباہ ہو جاتی ہے بہت ہی اچھا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آج غزہ میں اسرائیل کے لئے حماس سے بدتر کوئی نہیں ہے، حماس ایک ایسی تحریک ہے جس نے گذشتہ مہینے میں ہزاروں کی تعداد میں مختصر فاصلے ، درمیانے فاصلے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور راکٹ فائر کیے تھےلہذا میرا کہنا ہے کہ اسرائیل کو حماس کو کسی بھی سیاسی بالادستی یا فوجی استثنیٰ کی اجازت دینی چاہئے۔