اسلام آباد: (سچ خبریں) پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان کو ایلیمنیٹ (چھٹکارا حاصل کرنا) کرنے کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرنا بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، حکومت کی جب مقدمات سے بات نہیں بنی تو یہ لوگ مختلف بیانات کو لے کر مذہبی منافرت کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد میں ثانیہ نشتر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک دو صحافیوں کا گروپ جو اسٹریٹجک میڈیا سیل کے ساتھ کام کرتا ہے، اس نے بھی ایک ویڈیو بنا کر ڈالی، یہ تمام لوگ دراصل عمران خان کے قتل کے اوپر کام کر رہے ہیں، یہ ساری اسکیم کے چھوٹے چھوٹے حصے دار ہیں، مذہبی منافرت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ایلیمنیٹ (چھٹکارا حاصل کرنا) کرنے کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرنا بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس حکومت نے توہین مذہب کے مقدمات بنائے، پھر دہشت گردی کے مقدمات بنائے، جب بات نہیں بنی تو یہ لوگ مختلف بیانات کو لے کر مذہبی منافرت کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج جو مریم نواز نے جو کیا یا اس سے پہلے فضل الرحمٰن کر رہے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ کیونکہ عمران خان انتخابات میں نہیں ہار رہے، تو ان کو ‘فزیکلی ایلیمنیٹ’ (جسمانی طور پر ختم کرنا) کیا جائے، میڈیا اسٹریٹجک سیل مریم نواز چلاتی ہیں اور پیسے بھی وہی خرچ کرتی ہیں، اسکیم بنانا بھی ان کا کام ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ فہد حسین جیسا آدمی جس سے آپ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے معاملات میں نہیں پڑے گا، وہ بھی اس سارے عمل کا حصہ ہے، ان تمام لوگوں کی باری بھی آئے گی، یہ جو بھی کر لیں اس کا جواب انہیں ملے گا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ رات کو ٹیلی تھون دکھانے پر جو شرمناک رویہ اے آر وائی، بول، کیپیٹل اور جی این این ٹی وی کے ساتھ کیا گیا، جس طرح ان کو بند کیا گیا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، صحافیوں پر باقاعدہ انسداد دہشت گردی کے مقدمات بنائے جارہے ہیں اور ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔
انہوں نے ٹیلی تھون کے دوران ٹرانسمیشن کی بندش کے پیچھے حکومت کا ہاتھ نہ ہونے کے دعوے پر تنقید کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ میڈیا بلیک آؤٹ کے ذمہ داران کی شناخت ظاہر کریں، بصورت دیگر پی ٹی آئی حکومت کو عدالت میں گھسیٹے گی جہاں ان سے ٹی وی چینلز کی بندش کے لیے فون کال کرنے والوں کے نام پوچھے جائیں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ٹیلی تھون کا مقصد سیاسی نہیں تھا، پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں لوگ سیلاب سے متاثر ہیں، حکومت اور میڈیا کو پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دینا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی بڑا سیلاب آیا تھا لیکن وہاں پر سیلاب کی تباہی کم ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان میں زیادہ تباہی ہوئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے سیلاب سے بچاؤ کے زیادہ مؤثر اقدامات کیے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ 29 اگست کو ہونے والی ٹیلی تھون میں 5 ارب روپے دینے کا عہد کیا گیا تھا، جس میں سے 2 ارب روپے ٹیکساس کے ایک ہی شخص نے بحالی کے لیے دینے کا کہا تھا، یہ پیسے دوسرے مرحلے میں آنے ہیں، ہمارے پاس بینک میں 3 ارب 30 کروڑ روپے موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں سے ایک ارب 90 کروڑ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں جبکہ مقامی افراد کی جانب سے ایک ارب 93 کروڑ روپے موصول ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے دعویٰ کیا کہ بیرون ممالک سے 3 ارب 80 کروڑ روپے کچھ وجوہات کی بنا پر کریڈٹ کارڈ کے ذریعے موصول نہیں ہوسکے، اس کا ہمیں اس لیے پتا ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر لوگ کریڈٹ کارڈ سویپ کرتے ہیں تو جو ٹرانزیکشن ناکام ہو جاتی ہیں، ہمارے پاس ان کا بھی ڈیٹا ہے۔
ان کا کہنا تھا تقریباً ایک لاکھ لوگوں نے عطیات دیے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ گزشتہ روز کی ٹیلی تھون میں 2 گھنٹے میں 5 ارب 20 کروڑ روپے اکٹھا ہوگئے ہیں، کالز کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا تھا، بہت بڑے پیمانے پر لوگ عمران خان کی کال پر پیسے بھیج رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پیسے کو شفافیت کے ساتھ غیر جانبدارنہ انداز سے خرچ کریں، ہم یہ پیسہ لوگوں میں نقد رقم کی صورت میں جلد سے جلد تقسیم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچے مکانات یا نہر کے راستے میں آنے والے گھروں کو امداد سے محروم کردیا جائے گا کیونکہ قانون یہ کہتا ہے لیکن ہم ایسے لوگوں کو امداد سے محروم نہیں کریں گے، 10 فیصد ہاؤسنگ فنانس کی مد میں حکومتوں کے ساتھ حصہ ڈال رہے ہیں، جن کے مکانات کچے میں تھے ان کے پاس کچھ پیسے پہنچ جائیں تاکہ وہ کہیں سر چھپانے کی جگہ بنا لیں۔
انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ہماری پالیسی یکساں ہوگی، ہمارے معاملات حکومتِ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے طے پاچکے ہیں، وہی چیز ہم بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی پیش کریں گے، ہمیں امید ہے کہ دیگر صوبوں کے حکومتیں ہم سے تعاون کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مستحقین کو جانچنے کے لیے خیبر پختونخوا میں 900 افراد اسکولوں میں جاکر ٹیبلیٹس پر ڈیٹا جمع کرتے ہیں، ان کے لیے ہم نے نئی ایپ بنائی ہے، لڑکوں کی ٹریننگ شروع ہوگئی ہے، 3 دن بعد یہ لڑکے تمام متاثرہ علاقوں میں جاکر گھروں کی تصاویر لیں گے، اور اس کو گوگل میپ پر مارک کردیں گے تاکہ کوئی بھی اس کو جاکر دیکھ سکے گا۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ گھروں کی شناخت کے بعد ان کے نام، شناختی کارڈ نمبر اور ان کا موبائل نمبر ہم بینک آف پنجاب اور بینک آف خیبر کو دیں گے، وہاں پر ہم نے نیا پیمنٹ سسٹم ڈیزائن کیا ہے، لوگوں کو مسیجز بھیجے جائیں گے کہ آپ کے پیسے آگئے ہیں، اس طرح متاثرین بینک کی برانچز سے یا تو پیسے لے سکیں گے یا پھر اکاؤنٹ کھولنے میں مدد کی جائے گی کیونکہ خیبر پختونخوا جزوی نقصان والے گھر کے ایک لاکھ 60 اور مکمل تباہ ہونے والے گھر کو 4 لاکھ روپے دے رہا ہے۔
امریکا کے سابق سفیر رابن رافیل کی عمران خان کے ساتھ ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میں عمران خان سے اس حوالے سے نہیں پوچھ سکا لیکن وہ یہاں ہیں تو ملاقات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری پالیسی بڑی واضح رہے، امریکا کے ساتھ ہماری کوئی جنگ نہیں ہے، وہ ریٹائر ہو چکی ہیں ان کا امریکی حکومت کے ساتھ تعلق نہیں ہے، اگر سیلاب یا دیگر معاملات پر امریکی سفارتخانہ ساتھ سیاسی یا حکومتی رابطے برقرار رکھیں گے، امریکا کے ساتھ پاکستان کےتعلقات کی بڑی اہمیت ہے، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، اور دو طرفہ تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔