اسلام آباد: (سچ خبریں) آئی ایم ایف کی جانب سے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اور ’ساورن ویلتھ فنڈ‘ پر تنقید کے بعد حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں زبردست کمی، گیس اور بجلی کے شعبوں میں بروقت ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کو یقینی بنانے، زراعت اور ریٹیل سیکٹر کو مؤثر ٹیکس نیٹ میں لانے اور فوری طور پر محصولات کی کمی پوری کرنے کے لیے متعدد اشیا پر ود ہولڈنگ ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے یا بڑھانے کا عہد کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے منظور شدہ قرض پروگرام کے حوالے سے جاری ایک دستاویز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان 25 ستمبر تک کل 22 اسٹرکچرل بینچ مارکس کے ذریعے اپنے وعدوں پر قائم ہے کیونکہ ملک کو اگلے پانچ برس (2025 تا 2029) کے دوران تقریباً 110.5 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے، جو سالانہ تقریباً 22 ارب ڈالر بنتے ہیں۔
حکومت نے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے تاجر دوست اسکیم کے دائرہ کار کو مزید 36 شہروں تک توسیع دینے کا بھی عزم کر رکھا ہے، جو اس وقت 6 شہروں میں نافذ ہے، اس اسکیم سے رواں برس تقریباً 250 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا ہو گا۔
حکومت نے تمام سرکاری افسران (گریڈ 17-22) کے اثاثوں کو ڈیکلیئر کرنے کو یقینی بنانے کا بھی وعدہ کیا ہے، لیکن یہ عوامی جانچ پڑتال کے لیے دستیاب نہیں ہوگا، بلکہ بینکوں، ٹیکس حکام اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور تحقیقاتی ایجنسی کے مطالبہ پر قابل رسائی ہوگا۔
حکومت نے رواں سال کے دوران پاور سیکٹر کے 4 اداروں کی نجکاری کرنے کا بھی عہد کیا ہے، جن میں 2 ڈسٹری بیوشن اور 2 جنریشن پلانٹس شامل ہیں۔
کنٹیجنسی منصوبے کے طور پر حکومت مشینری کی درآمد، خام مال کی درآمد، صنعتی اداروں اور تجارتی درآمد کنندگان پر ایڈوانس انکم ٹیکس میں اضافہ اور سپلائیز، خدمات، معاہدوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھانے اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرے گی۔
آئی ایم ایف کے عملے نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی تشکیل اور ساورن ویلتھ فنڈ کے قیام پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں تقریباً 7 بڑے منافع بخش ادارے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عملے نے سرمایہ کاری کے ماحول کے حوالے سے لیول پلینگ فیلڈ اور گورننس کے معیارات میں کمی سے بچنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے، ان مسائل کو حل کیا جانا ہے۔
تاہم حکومت نے سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور مسابقتی غیرجانبداری اور لیول پلینگ فیلڈ کو یقینی بنانے کے لیے اضافی اقدامات کا وعدہ کیا ہے۔
حکومت نے دسمبر کے آخر تک 2023 ساورن ویلتھ فنڈ ایکٹ میں ترمیم کرنے کا بھی وعدہ کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے سرکاری ملکیتی ادارے ’ایس او ای ایکٹ‘ کے نظام میں واپس آجائیں۔
حکومت نے اگلے مالی سال 2026 کے بجٹ میں کھاد اور پیسٹی سائیڈ پر 5 فیصد اضافہ کرنے کا عہد کیا ہے۔
صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدے کے تحت چاروں صوبوں نے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام میں اکتوبر کے آخر تک ترمیم کرنے کا عہد کیا ہے تاکہ قانون سازی کی تبدیلیوں کے ذریعے وفاقی ذاتی آمدنی (چھوٹے کسانوں) اور کارپوریٹ انکم (کمرشل ایگریکلچر) ٹیکس نظاموں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہو سکیں۔