مظفرآباد (سچ خبریں) آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات کے بارے میں اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے پہلے کشمیری قیادت سے بات چیت ہونی چاہیئے۔
تفصیلات کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس نے 5 اگست 2019 اور اس کے بعد جتنے بھی اقدامات کیے وہ اس پر نہ صرف قائم ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے مزید مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔
ایسی صورت میں دہلی سے مذاکرات کرنے سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ یہ پروپیگنڈا کرے گا کہ اس کے غیر قانونی اقدامات کو جائز اور درست تسلیم کر لیا گیا ہے۔
پاکستان کے نجی ٹیلی ویڑن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت کے بعد فائربندی اس اعتبار سے درست اقدام ہے کہ اس معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان گولہ باری سے جو انسانی جانوں اور شہریوں کی املاک کا نقصان ہوتا ہے وہ رک جائے گا لیکن اس سے آگے بڑھ کر بھارت سے کسی قسم کے مذاکرات سے پہلے کشمیری قیادت سے مشاورت ہونی چاہیے اور حکومت پاکستان لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کی قیادت خاص طور پر کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت کو اعتماد میں لے تاکہ بھارت کے ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
انہوں نے کہا بھارت ایک طرف مذاکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف اپنی 9 لاکھ فوج کی مدد سے مقبوضہ کشمیر کی 80 لاکھ آبادی کو گزشتہ 600 دنوں سے محاصرے میں لیے ہوئے ہے اور ان کے تمام بنیادی اور شہری حقوق کو سلب کرنے کے علاوہ نوجوانوں کو ہر روز جعلی مقابلوں میں قتل کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیری ہمارے اپنے شہری ہیں، وہ اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں اور ہمیں پوری امید اور اعتماد ہے کہ ریاست پاکستان انہیں اپنی جدوجہد میں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی اور نہ ہی پاکستان کے 22 کروڑ عوام ان کی سیاسی اور اخلاقی حمایت سے کبھی دستبردار ہوں گے۔
سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دینے کے لیے جو خط لکھا ہے اس میں الزام تراشی نمایاں ہے جبکہ اس کے جواب میں وزیراعظم پاکستان کے خط میں کھل کر کشمیر کی بات کی گئی ہے۔
جب صدر آزاد کشمیر سے پوچھا گیا کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان فائربندی کب تک قائم رہے گی تو صدر نے کہا کہ یہ بھارت سے پوچھا جائے کیوں جارحیت ہمیشہ بھارت کی طرف سے ہوتی رہی، ہماری افواج اپنے دفاع میں بھارت کو جواب دیتی رہی ہیں اور وہ صرف بھارت کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بناتی رہی ہیں، پاک فوج نے مقبوضہ کشمیر کی شہری آبادی کو کبھی نشانہ نہیں بنایا کیوں کہ وہ ہمارے اپنے شہری اور بھائی بہنیں ہیں۔
سعودی عرب اور عرب امارات کی طرف سے مسئلہ کشمیر حل کروانے کی کوششوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ سعودی عرب اور اسلامی تعاون تنظیم کے ممبران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت سے اپنے اچھے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر میں مظالم بند کرائیں، کشمیریوں کی نسل کشی رکوائیں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کروائیں۔