سچ خبریں: اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے خبردار کرتے ہوئے کہ دنیا پر ایٹمی جنگ کے سائے پھر سے نمودار ہو گئے ہیں، جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے پر زور دیا۔
ٹاس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے امریکی فوج کی طرف سے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم حملے کی برسی کے موقع پر ایک بیان جاری کیا جس میں بین الاقوامی نظام میں جوہری خطرات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرے کا سامنا:اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ اب جب کہ کچھ ممالک ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، دنیا پر ایک بار پھر ایٹمی جنگ کے سائے نمودار ہو گئے ہیں۔
اس سلسلے میں گوٹیریس نے مزید کہا کہ ایٹمی جنگ کا ڈھول ایک بار پھر پیٹا جا رہا ہے، بداعتمادی اور تقسیم بڑھ رہی ہے، سرد جنگ کے دوران موجود جوہری تصادم کے سائے دوبارہ نمودار ہو گئے ہیں اور کچھ ممالک نے ایک بار پھر لاپرواہی کے ساتھ جوہری تلواریں نیام سے نکال لی ہیں اور انہیں استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔
گوتریس نے ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ اقوام متحدہ کی اولین ترجیح ہے،اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ عہدیدار نے مزید کہ ایٹمی خطرے کو ختم کرنے کا واحد راستہ ایٹمی ہتھیاروں کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ایٹمی سایہ ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہو جاتا۔
یاد رہے کہ ریاستہائے متحدہ کی مسلح افواج نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر تاریخ کا پہلا ایٹم بم حملہ کیا اور اس جنگ کے اختتام پر جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کو نشانہ بنایا،ان بم دھماکوں کو جاپانی سلطنت کے ہتھیار ڈالنے میں تیزی لانے کے طریقے کے طور پر جائز قرار دیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ یہ حملے بنی نوع انسان کی تاریخ میں کسی فوجی تنازع میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی واحد مثال ہیں،مختلف اندازوں کے مطابق ہیروشیما پر ایٹم بم پھٹنے سے ایک دن میں 70 ہزار سے 1 لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے۔
اس کے علاوہ، 1945 کے آخر تک ہیروشیما کے ایٹمی بموں سے متأثر ہونے والے بعض افراد کے ہسپتال میں داخل ہونے کی وجہ سے ایٹمی حملے کے متاثرین کی تعداد بڑھ کر 140000 ہو گئی۔
مزید پڑھیں: روس یوکرین تنازع میں ایٹمی جنگ کا خطرہ
یاد رہے کہ ہر سال ہیروشیما کے ایٹمی حملے میں زندہ بچ جانے والوں کی المناک فہرست میں کوئی کوئی نہ کوئی شامل ہوتا رہتا ہے،گزشتہ ایک سال کے دوران اس فہرست میں تقریباً 5000 نئے نام شامل ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اس فہرست میں ان لوگوں کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں جو دھماکے میں مر گئے لیکن ان کی ہلاکتوں کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے جبکہ اس وقت متاثرین کی کل تعداد 350000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
دوسری جانب دو ماہ سے بھی کم عرصہ قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے بیلاروس میں روسی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کے ردعمل میں خبردار کیا تھا کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے ضرورت پڑنے پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں ایک حقیقی خطرہ ہیں جسے سنجیدگی سے لیاجانا چاہیے۔