?️
اسلام آباد(سچ خبریں)چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے دوران 7 بیلٹ کے مسترد ہونے کا تنازع شدت اختیار کرگیا جس کے بارے میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو شخص ووٹ ڈال رہا ہے وہ اس کا ارادہ ہے جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ دونوں ایوانوں میں کوئی کارروائی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی جب کہ سابق اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی کاروائی کو عدالت میں چیلنج میں نہیں کیا جا سکتا۔
اس معاملے سابق اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی کارروائی کا حصہ ہے لہذا مسترد ہونے والے بیلٹ کسی ٹریبونل یا عدالت کے سامنے چیلنج نہیں کیے جا سکتے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ سینیٹ کی کارروائی کو آئین کے آرٹیکل 69 اور 60 کے تحت مکمل طور پر محفوظ کیا گیا ہے آرٹیکل میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی کسی بھی کارروائی کی صداقت کو بے ضابطگی کی بنا پر سوال نہیں کیا جاسکتا۔
سابق اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ کسی غلط جگہ پر مہر لگانے سے رائے دہندگان نے بیلٹ کی رازداری کی شرط کی خلاف ورزی کی کیونکہ انہوں نے اپنے ووٹوں کی شناخت کی۔
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر صلاح الدین احمد نے رائے دی کہ اگرچہ آئین نے پارلیمنٹ کے کسی بھی کارروائی کو چیلنج کرنے پر پابندی عائد کردی۔
انہوں نے مزید کہا کہاگر کوئی فعل بظاہر بد اخلاقی پر مبنی ہو اور اس کا دوسرا کوئی تدارک نہیں ہے تو آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے 2004 میں صلاح الدین اور عبدالخالق کے مابین ہونے والے مقدمے کا حوالہ دیا جس میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ریمارکس دے کہ بیلٹ پیپرز کی صداقت کے سوال کا فیصلہ صرف ووٹروں کی نیت کا پتہ لگانے سے ہی کیا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں مہر لگانے کا طریقہ مادی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ معاملے میں امیدوار کے نام پر نشان یا مہر لگانا تھا۔
پانچ ووٹوں کے سلسلے میں جس میں امیدواروں کی علامت کی بجائے ان کے ناموں پر مہر لگائی تھی جسٹس ڈوگر نے فیصلے میں لکھا کہ (ایسا لگتا ہے کہ)رائے دہندگان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں ان (امیدواروں) کے حق میں۔
ایڈووکیٹ کاشف علی ملک نے کہا کہ اعلی عدالتوں نے ووٹرز کی نیت پر بہت سارے فیصلے دیے جن میں تکنیکی وجوہات کی بنا پر بیلٹ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ 1987 میں جمشید احمد خان کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ریمارکس دے تھے کہ انتخابی معاملات میں انتخابی افسران اور عدالت کو اہم قواعد پر عمل پیرا ہونا تھا تاکہ سرکاری بیلٹ میں ووٹر کے ارادے کا تعین کیا جا سکے۔
ایڈووکیٹ ملک نے کہا کہ ڈاکٹر سیدہ سلطانہ ابراہیم بمقابلہ افروز نذیر احمد کیس اور سن 1988 کے اعجاز احمد چیمہ بمقابلہ افتخار حسین کیس سے وضاحت ملتی ہے کہ اس طرح کے کاغذات مسترد کرنے سے پہلے اس کی ’پہلے استدعا اور پھر ثبوت سے ثابت کیا گیا‘۔


مشہور خبریں۔
مزاحمتی تحریک کے ہاتھوں شکست کے بعد صیہونی جنگی حکمت عملی میں تبدیلی
?️ 12 جنوری 2025سچ خبریں:صیہونی اخبار معاریو نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی
جنوری
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض معاہدے میں امریکا کا اہم کردار
?️ 3 جولائی 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) امریکا نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)
جولائی
جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں پر شمالی کوریا کا ردعمل
?️ 20 مئی 2023سچ خبریں:شمالی کوریا نے ایک بیان جاری کر کے واشنگٹن اور سیول
مئی
17 جولائی سے پہلے پی ٹی آئی کو لاہور ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا
?️ 16 جولائی 2022لاہور: (سچ خبریں)الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کو بڑی کامیابی مل گئی۔پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر
جولائی
یروشلم کو یہودیانے کے لیے صیہونی حکومت کا نیا منصوبہ
?️ 22 مئی 2023سچ خبریں:صیہونی حکومت کی کابینہ نےآج مقبوضہ بیت المقدس کے پرانے کوارٹر
مئی
غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک یمن نے کتنے بحری اور جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا ہے؟
?️ 16 مارچ 2024سچ خبریں: یمن کی انصار اللہ کے سربراہ نے اس بات پر
مارچ
عکاظ: اسرائیل کا ہدف عرب ممالک پر مکمل تسلط ہے، ان کے ساتھ معمول پر لانا نہیں
?️ 30 جولائی 2025سچ خبریں: سعودی اخبار عکاظ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ "غزہ
جولائی
فلسطینی قیدی کی لرزہ خیز داستان؛ صیہونی جیلوں میں قیدیوں پر بدترین تشدد
?️ 14 اکتوبر 2025سچ خبریں:حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد
اکتوبر