وادی تیراہ: (سچ خبریں)مقامی حکام نے اصرار کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں عسکریت پسندوں کو دیکھے جانے کے بعد خوف کے مارے کئی خاندان مختلف علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مقامی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ سندہ پال، جرہوبی، دوا کھلے، بگھڑائی، کھاپور اور درے نگری کے خوف زدہ خاندان یا تو ملحقہ قبائلی ضلع اورکزئی منتقل ہوگئے ہیں یا پھر دار جمعہ، شیر خیل اور مرگٹ خیل کے علاقوں میں مقیم اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس چلے گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نقل مکانی کرنے والے لوگ کمرخیل، اکاخیل، ذخاخیل اور سپاہ قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ایک دہائی کی نقل مکانی کے بعد حال ہی میں وادی میں اپنے گھروں کو واپس آئے تھے۔
حکام نے بتایا کہ ان خاندانوں کی نقل مکانی کے دوران سوکھ کے علاقے میں ان بے گھر افراد کے لیے ایک کیمپ لگایا گیا تھا۔
قبائلی افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرمیڈیا کو بتایا کہ انہیں فوری طور پر گھر چھوڑ کر جانے کا کہا گیا تھا جب کہ سامان کی منتقلی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بزرگ افراد، خواتین اور بچوں نے بھی طویل فاصلہ پیدل طے کیا۔
حکام نے اصرار کیا کہ متاثرہ خاندان زیادہ دیر تک بے گھر نہیں رہیں گے اور ان تمام خاندانوں کو صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) میں رجسٹر کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر خاندان اپنے علاقوں میں واپسی سے قبل رجسٹرڈ نہیں تھے۔
حکام نے یہ بھی کہا کہ مشتبہ افراد ان علاقوں میں داخل ہوگئے جنہیں سیکورٹی حکام نے ڈی نوٹیفائی کیا تھا۔
قبائلیوں نے اصرار کیا کہ جون میں ان کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہونے سے قبل ہی مسلح افراد کچھ علاقوں میں موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے عمائدین نے ان ’ناپسندیدہ‘ عناصر کی موجودگی کی اطلاع مقامی حکام کو دی تھی لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔
قبائلیوں نے دعویٰ کیا کہ چند روز قبل سیکورٹی چیک پوسٹوں اور قافلوں پر دیسی ساختہ بموں سے ہونے والے حملوں کے بعد انہیں کہا گیا تھا کہ یا تو مسلح افراد کو سیکورٹی فورسز کے حوالے کریں یا فوری طور پر علاقہ چھوڑ دیں۔
ان حملوں میں 2 فوجی زخمی ہوئے جب کہ گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
باڑہ پہنچنے والے کچھ خاندانوں نے بتایا کہ انہیں گھر چھوڑنے کے لیے ایسے وقت میں کہا گیا جب وہ سخت سرد موسم سے نمٹنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو کر رہے تھے، حکام کی جانب سے تاحال تباہ شدہ املاک کا تخمینہ ہی نہیں لگایا گیا۔
قبائلیوں کا کہنا ہے کہ مسلح افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے ہے اور ان کی موجودگی سے رہائشیوں میں خوف و ہراس اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
باڑہ میں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں اور تاجروں نے 4 ستمبر کو خیبر سیاسی اتحاد کے بینر تلے ’امن مارچ‘ کا انعقاد کیا تھا اور سیکیورٹی فورسز سے ان مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا تھا۔
کے ایس آئی باڑہ چیپٹر کے سربراہ شاہ فیصل آفریدی نے ڈان کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تیراہ کے کچھ حصوں میں ’شرپسندوں‘ کی اچانک واپسی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خوف کا شکار ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ‘شرپسند’ کم از کم چار پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اور مقامی تاجروں اور سیاست دانوں سے پیسے بٹورنے میں ملوث تھے۔