اسلام آباد: (سچ خبریں) قانونی ماہرین نے سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے نئی تاریخ کے حکم پر کہا ہے کہ حکومت اس پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے۔
نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے رہنما امجد شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات کے بارے میں سپریم کورٹ نے اس طرف گئی کہ ان کے پاس تاریخ دینے کا اختیار ہے لیکن اس کی توسیع کا اختیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر وہ اتھارٹی جس کے پاس تاریخ دینے کارروائی کرنے کا اختیار ہے تو اس کے پاس توسیع کا اختیار بھی ہے جو اس کو جنرل کلاز دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آج کا جو فیصلہ ہے جو سب پر لازم ہے لیکن افسوس اس بات پر کہ فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو اتنا تنازع نہیں بنتا اور مجھے اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی بڑی ذمہ داری تھی وہ اپنے ادارے کو کسی تنازع میں نہیں ڈالتے اور پاکستان بار کونسل نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ فل کورٹ بنا دیں۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے سمانیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین جہاں سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے وہی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ہے اور الیکشن کمیشن بھی ایک آئینی ادارہ ہے، جس میں بغیر کسی دباؤ آزادانہ انتخابات کرانا ہے، اس دباؤ میں چاہے سپریم کورٹ کا ہو یا کسی فرد کا ہو لیکن الیکشن کمیشن پابند ہے کسی کا دباؤ قبول نہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ فخرالدین ابراہیم جی نےسپریم کورٹ سے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن آپ کے ماتحت نہیں بلکہ آزاد ادارہ ہے۔
جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے منیب فاروق نے کہا کہ فیصلہ آئینی ہے اور اس میں کوئی غیرآئینی بات نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ نے حکومت کا استدلال نہیں مانا کہ ایسے حالات ہوں تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 258 کے تحت الیکشن منصوبہ تبدیلی کے الیکشن کمیشن کے اختیار کو بھی تسلیم نہیں کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اس ایکٹ کے تحت انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی نگران حکومت، مردم شماری اور حلقہ بندیوں سے متعلق دیے گئے دلائل تسلیم نہیں کیے لیکن سپریم کورٹ اپنے اندر موجود مسائل ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھا رہی ہے۔
منیب فاروق کا کہنا تھا کہ یکم مارچ کے فیصلے کے حوالے سے سب سے بڑا تنازع ہے کہ جو 4/3 کا تھا یا ¾ کا تھا لیکن سپریم کورٹ نے صرف اتنا کہا کہ وہ قابل عمل نہیں ہے اور قانون کے اندر اس کی اہمیت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے نہیں ہوتا کیونکہ جن جج صاحبان نے وہ فیصلہ دیا تھا وہ بھی کسی کالج کے قانون کے طالب علم نہیں بلکہ ان کی اپنی ایک حیثیت ہے، وہ ہائی کورٹ سے سفر طے کر سپریم کورٹ تک آئے، ان کی صلاحیت پر کوئی سوال نہیں ہے صرف سپریم کورٹ کے اندر جو اختلاف ہے اور چیف جسٹس کسی جج صاحب کو اپنے ساتھ بٹھانا پسند نہیں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں اگر کوئی کہہ رہا ہے کہ چیف جسٹس صاحب جسٹس کارنیلیئس کے رستے پر چل رہے ہیں تو مجھے وہ جسٹس سجاد علی شاہ کے رستے پر چلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
منیب فاروق نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت پر لاگو ہے اور اس پر عمل درآمد کی پابند ہے لیکن سوال یہ ہے کیا حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی، کیا یہی ارادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو قانون منظور کیا ہے وہ ابھی تک مکمل قانون نہیں بنا ہے کیونکہ اس کو صدرمملکت کی توثیق نہیں ملی ہے، 20 دن کے بعد حکومت کے پاس 184 تھری کے تحت مقدمے پر اپیل کا اختیار آجائے گا۔
منیب فاروق نے کہا کہ اپیل کے اندر اگر 5 رکنی بینچ ہے یا 3رکنی بینچ ہوگا تو اپیل میں 5 رکنی بینچ ہوگا اور اس میں یہ 5 رکنی بینچ نہیں بیٹھا ہوگا جبکہ نظرثانی کا حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں یہی جج صاحبان سنیں گے جنہوں نے پہلے فیصلہ دیا ہے تو لہٰذا حکومت کو مزید 20 دنوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔
وکیل عبدالمعیز جعفری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بحران واپس، جہاں سے چلے تھے واپس وہاں آ گئے۔
سماجی رابطے کے ویب سائٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں داؤد نے کہا کہ پاکستان کی جمہوریت کو ہمیشہ ججوں نے نقصان پہنچایا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کا آئینی و قانونی حکم غیرقانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا۔
وکیل محمد احمد پنسوتا نے کہا کہ فیصلہ قانونی طور پر درست ہے، ہم تقسیم کو نظر انداز کر سکتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ تمام 17 ججز مختلف سوچتے ہیں۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی ہونے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول بحال کرتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کی تاریح دے دی۔