سچ خبریں: پچھلے ایک سو سالوں میں قبضے، محاصرے اور جنگ کے باوجود غزہ کے عوام فلسطینی تشخص کے دفاع کے اصول پر ڈٹے رہے ہیں۔
غزہ کے عوام جو کبھی عرب دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک تھا، گزشتہ ایک سو سال میں قبضے، محاصرے اور جنگ کے باوجود فلسطینی شناخت کے اصول کے دفاع پر ڈٹے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونیوں کو اب تک غزہ سے کیا ملا ہے؟ صیہونی تجزیہ کار کی زبانی
انہوں نے کہا کہ غزہ آج، کل یا پچھلی صدی کی سرزمین نہیں ہے،غزہ کی تاریخ چار ہزار سال پرانی ہے،غزہ کے بارے میں کچھ دلچسپ تاریخی حقائق ہیں۔
1۔ غزہ کی خوبصورتی؛ منفرد نوعیت سے قابل تعریف مزاحمت تک
غزہ کبھی عرب دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک تھا، 1659 میں ایک فرانسیسی سیاح نے غزہ کو ایک انتہائی قابل تعریف اور خوشگوار علاقہ قرار دیا،دو صدیوں بعد ایک اور فرانسیسی قلمکار پیئر لوٹی غزہ کے وسیع ، آباد اور سرسبز میدانوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے، آج اگرچہ صیہونی حکومت نے غزہ کے قدرتی حسن کو تباہ کر دیا ہے لیکن ظلم اور جرائم کے خلاف مزاحمت غزہ کی خوبصورتی کا ایک اور پہلو ہے۔
2. غزہ کبھی نہیں جھکے گا
غزہ کے عوام اس سے پہلے بھی کئی بار صیہونی حکومت کے موجودہ جرم جیسا جرم دیکھ چکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی غزہ نہیں چھوڑا، 332 قبل مسیح میں غزہ اسکندر اعظم کے مصر پر حملے کے خلاف مزاحمت کرنے والا آخری شہر تھا،اس واقعہ نے ایسے لوگوں کی ایک لیجنڈ کی تشکیل کو ہوا دی جو کبھی نہیں جھکے۔
غزہ میونسپلٹی کی علامت فینکس ہے، اس جنگ کے دوران دونوں فریقوں نے غزہ کی نرم مٹی کے نیچے لاتعداد سرنگیں کھود کر اپنی پوزیشن مضبوط کی،بالآخر اسکندر اعظم کی فوجیں غالب آ گئیں لیکن ہر طرف کو بھاری قیمت چکانا پڑی، اس جنگ کے دوران اسکندر زخمی ہوا اور اس نے غزہ کے لوگوں سے خوفناک انتقام لیا؛ زیادہ تر مرد آبادی کا قتل عام کیا گیا اور ان کی خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا۔
3. غزہ کی آج کی صورتحال؛ برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کی پیداوار
جب 1906 میں برطانوی حکومت والے مصر اور عثمانی فلسطین کو الگ کرنے کے لیے ایک سرحدی لکیر کھینچی گئی جو رفح شہر کے وسط سے گزری تاکہ دونوں سلطنتوں کے درمیان مؤثر طریقے سے تجارتی زون بنایا جا سکے، لیکن پہلی جنگ عظیم کے دوران دونوں کی فوجی طاقتوں نے اس سرحد پر شدید اختلاف کیا، اور برطانوی فوج نے تین کوششوں کے بعد بالآخر 1917 میں عثمانی لائنوں کو توڑ دیا۔
جنرل ایڈمنڈ ایلن بے اسی سال 9 نومبر کو تباہ شدہ شہر غزہ میں داخل ہوا، جس دن برطانوی حکومت نے بالفور اعلامیہ شائع کیا اور فلسطین میں یہودی عوام کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا، ” جس طرح برطانیہ نے مغربی ایشیائی خطے میں تقریباً مستقل افراتفری اور فسادات میں مرکزی کردار ادا کیا، اسی طرح فلسطین اور غزہ کی موجودہ صورتحال میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
4. غزہ؛ فلسطینی قوم پرستی کا قلعہ
ایک اور نکتہ جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ غزہ ان فلسطینی علاقوں میں سے ایک تھا جسے صہیونی آبادکاری کے پروگراموں نے کم نشانہ بنایا تھا لیکن یہ فلسطینی قوم پرستی کا مرکز اور قلعہ بن گیا تھا، 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی مینڈیٹ کے بعد سے، یہ علاقہ فلسطینی قوم پرستی کا مرکز رہا ہے، 1967 سے صیہونی حکومت نے ہمیشہ غزہ پر قبضے، محاصرے یا جنگ کے ذریعے فلسطینی قوم پرستی کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔
یاد رہے کہ غزہ پر صیہونیوں کا 38 سال تک قبضہ رہا لیکن 2005 میں انہیں غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا،غزہ سے نکلنے کے بعد اس پٹی پر محاصرے کے علاوہ کئی جنگیں مسلط کی گئیں، 2008 میں 22 روزہ جنگ میں 13 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 1417 فلسطینی شہید ہوئے، 2012 کی 8 روزہ جنگ میں 166 فلسطینی شہداء کے مقابلے میں اسرائیلی ہلاکتوں کا تناسب 6 تھا، 2014 میں 51 روزہ جنگ میں 72 اسرائیلی مارے گئے اور 251 فلسطینی شہید ہوئے۔
2021 میں 11 روزہ جنگ میں 15 اسرائیلی ہلاک اور 256 فلسطینی شہید ہوئے،غزہ کے خلاف موجودہ جنگ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کے قبضے، محاصرے کی سب سے طویل، سخت اور پرتشدد جنگ ہے،غزہ میں حالیہ جنگ نے نہ صرف غزہ میں فلسطینی قوم پرستی کو کمزور نہیں کیا ہے بلکہ اسے مزید مضبوط بھی کیا ہے کیونکہ غزہ کے لوگ اپنی جان بچانے کے لیے اس پٹی کو چھوڑنا نہیں چاہتے یہاں تک کہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ جنگ صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کی شاندار تاریخی شناخت کے انکار کا نتیجہ ہے۔
5۔ دنیا کی تاریخ میں غزہ کا نام لکھا جائے گا
غزہ کی پٹی کے خلاف غزہ کے عوام کی نسل کشی پر مبنی صیہونی حکومت کی جنگ کو 100 سے زائد دن گزر چکے ہیں ،شکاگو یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور فضائی بمباری کی تاریخ کے قلمکار رابرٹ پوپ کا کہنا ہے کہ غزہ کا نام بمباری کا شکار ہونے والے ڈریسڈن اور دیگر مشہور شہروں کے ساتھ تاریخ میں لکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو کچھ آپ غزہ میں دیکھتے ہیں وہ تاریخ میں سزا کے سب سے زیادہ 25 فیصد مقدمات میں سے ہے،تین ماہ قبل، غزہ ایک متحرک جگہ تھی لیکن آج غزہ کچے کنکریٹ کا منظر ہے، اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کو نشانہ بنا رہی ہے لیکن اسرائیلی فضائیہ نے کہا ہے کہ غزہ پر بمباری سے زیادہ سے زیادہ نقصان ہوا ہے،اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے اکتوبر میں کہا کہ ہمارا زور نقصان پر ہے، درستگی پر نہیں۔
6۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ می غزہ کی مرکزیت
غزہ کی جنگ کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ 18 برسوں سے اسرائیلی رہنما یہ سمجھتے رہے ہیں کہ انہوں نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے ساتھ اسے مکمل طور پر پسماندہ کرنے کا بہترین فارمولہ تلاش کر لیا ہے لیکن اس نقطہ نظر کا ایک اہم نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سمجھوتہ کی پالیسی کو کمزور کیا اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے جرائم سے کا مقبالہ کرنےمزاحمت کو ہی واحد حل قرار دیا۔
تاہم، غزہ کی موجودہ جنگ، 1948، 1967 اور 1973 کی جنگوں کے برعکس، علاقائی سرحدوں میں تبدیلی کا باعث نہیں بنی۔ موجودہ جنگ مقبوضہ علاقوں میں گہرے اختلافات کو مزید تیز کرے گی، گذشتہ 18 سالوں میں غزہ صیہونی حکومت کے وسیع محاصرے میں رہا ہے اور اس حکومت نے عملی طور پر غزہ کو پسماندہ کرنے اور فلسطین میں اس کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن حالیہ جنگ کے بعد غزہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان واپس آ گیا ہے،عالمی رائے عامہ ، حتیٰ کہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کی توجہ ایک بار پھر غزہ پر مرکوز ہو گئی ہے۔ اس جنگ نے بلاشبہ غزہ اور اس کے عوام کو مستقبل میں ہونے والے اسرائیل فلسطین مذاکرات کا مرکز بنا دیا ہے،
غزہ؛ مغربی ایشیا میں امن اور استحکام کی کلید ہے
مزید پڑھیں: غزہ میں کتنی سرنگیں ہیں؟ امریکی اخبار کی زبانی
نتیجہ: غزہ میںمزاحمت کی ایک نئی نسل تشکیل پائے گی۔
1949 میں لوزان میں اقوام متحدہ کی امن کانفرنس میں، بن گورئن نے غزہ کی پٹی کو مقبوضہ فلسطین کے ساتھ الحاق کرنے کی تجویز پیش کی، لیکن یہ کبھی پورا نہیں ہوا،غزہ پر 38 سال کے قبضے کے باوجود یہ پٹی صہیونیوں کے قبضے میں نہیں آئی،اگرچہ ہمہ گیر محاصرہ اور غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کرنے کے نتیجے میں ایک انسانی تباہی ہوئی لیکن طوفان الاقصیٰ بھی اسی محاصرے کا نتیجہ ہے،اس وقت وحشیانہ جنگ کے بعد صہیونیوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ غزہ میں مزاحمت کی ایک نئی نسل تشکیل پائے گی جو آج کے جرائم کو لا جواب نہیں چھوڑے گی۔