کیا وینزویلا پر براہ راست امریکی فوجی حملہ قریب ہے؟

وینزویلا

?️

سچ خبریں: حالیہ ہفتوں میں امریکہ اور وینزویلا کے درمیان کشیدگی ایک نئے ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ امریکہ منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ کے نام پر وینزویلا کی عوامی مزاحمت کو شکست دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ 
یہ بحران، جس میں فوجی دھمکیاں، مخفی کارروائیاں، معاشی دباؤ اور پیچیدہ سفارت کاری شامل ہے، نے کیریبین اور لاطینی امریکہ میں وسیع پیمانے پر تشویش پیدا کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، مادورو حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے براہ راست دھمکی سے لے کر مذاکرات تک مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
کیریبین میں امریکی فوجی موجودگی میں اضافہ
امریکہ نے گزشتہ چند ماہ سے کیریبین میں اپنی فوجی موجودگی میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ ایئرکرافٹ کیرئیرز یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ، ونسٹن ایس چرچل وغیرہ وینزویلا کے ساحلوں کے قریب تعینات ہیں اور جدید ایف-35 جنگجو طیاروں کے ساتھ ہزاروں فوجی اہلکار اس خطے میں موجود ہیں۔ امریکہ کی یہ کارروائی، جو 1962ء کے کیوبائی میزائل بحران کے بعد کیریبین میں بحری افواج کا سب سے بڑا اجتماع ہے، وینزویلا میں ممکنہ براہ راست فوجی مداخلت کے بارے میں خدشات کو بڑھا رہی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین بیان میں اعلان کیا ہے کہ وینزویلا اور اس کے آس پاس کے علاقوں کا فضائی حدود "بلاک” ہے، جس نے امریکہ کے ممکنہ زمینی حملے کے بارے میں تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ کیریبین میں منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف امریکی کارروائی زمینی مرحلے تک جا سکتی ہے، حالانکہ اس کی درست تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
سیاسی بحران اور مادورو پر دباؤ
امریکی حکومت نے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے مادورو کو دباؤ میں لے رکھا ہے۔ ٹرمپ نے مادورو کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کا رہنما قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کے لیے 50 ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا ہے، جو 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کے لیے مقرر کردہ انعام سے دوگنا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد مادورو کو ہتھیار ڈالنے یا اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ تاہم، مادورو نے مزاحمت کا جواب دیا ہے اور اپنے حالیہ خطابات میں فوجی وردی پہن کر اپنے ملک کی خود دفاعی تیاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے عوامی تقریروں میں بار بار اعلان کیا ہے کہ وہ ہرگز ہتھیار ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور کسی بھی "سامراجی” دھمکی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
خفیہ کارروائیاں اور انٹیلی جنس آپریشن
فوجی دباؤ کے ساتھ ساتھ، ٹرمپ نے امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کو خفیہ آپریشنز کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ان آپریشنز کا مقصد معلومات جمع کرنا اور ممکنہ طور پر مادورو حکومت سے منسلک منشیات اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنانا ہے۔ ان اقدامات نے، فوجی کارروائیوں کے ساتھ مل کر، وینزویلا کی قومی خودمختاری کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قوانین کی پامالی کے بارے میں خدشات میں اضافہ کیا ہے۔
معاشی اور جغرافیائی سیاسی وجوہات
مادورو کے خلاف ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کی ایک اہم وجہ وینزویلا کے وسیع تیل کے ذخائر ہیں۔ وینزویلا کے پاس دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں اور ان پر کنٹرول امریکہ کے لیے جغرافیائی سیاسی فائدہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن وینزویلا کو اپنی استراتیجک پالیسیوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور چین، روس اور ایران کے اس ملک میں اثر و رسوخ کو روکنا چاہتا ہے۔
امریکہ اور وینزویلا کے تعلقات بھی تاریخی طور پر پیچیدہ رہے ہیں۔ 1970 کی دہائی میں، وینزویلا امریکہ کا ایک قابل اعتماد اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن 1998 میں ہیوگو چیویز کے انتخاب اور تیل کے شعبے کی قومیانا کے بعد تعلقات میں کشیدگی آگئی۔ چیویز اور پھر مادورو نے روس اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور تیل اور سلامتی کے معاملات میں امریکہ کے ساتھ تعاون سے دور ہو گئے۔ اقتدار میں واپس آتے ہی، ٹرمپ نے وینزویلا میں امریکی اثر و رسوخ بحال کرنے کے لیے جارحانہ پالیسی اپنائی ہے۔
داخلی اور بین الاقوامی رد عمل
ٹرمپ کی وینزویلا پالیسی پر رد عمل مختلف رہا ہے۔ امریکہ کے اندر، "میگا” (Make America Great Again) تحریک کے حامیوں کو طویل اور مہنگی جنگ میں داخل ہونے کی فکر ہے۔ اس تحریک کے کچھ ارکان، جیسے مارجوری ٹیلر گرین، نے ٹرمپ پر غیر ملکی معاملات پر ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کا کھلم کھلا تنقید کی ہے۔ دوسری طرف، مارکو روبیو جیسے دیگر افراد نے مادورو پر دباؤ کی پالیسی کی حمایت کی ہے، کیونکہ یہ فلوریڈا ریاست اور کیوبائی اور وینزویلائی کمیونٹی میں مقبول ہے۔
بین الاقوامی سطح پر، بہت سے لاطینی امریکی اور یورپی ممالک نے منفی رد عمل ظاہر کیا ہے۔ مادورو کے اتحادی روس اور چین نے امریکی مداخلت کی سخت مخالفت کی ہے۔ روس نے کہا ہے کہ یہ اقدامات "ناقابل قبول” ہیں اور چین نے بھی زور دے کر کہا ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی مداخلت کی مخالف ہے۔ برازیل اور کولمبیا کے صدور نے ان اقدامات کو "لاطینی امریکہ پر حملہ” قرار دیا ہے۔
قانونی اور انسانی پہلو
انسانی حقوق کے کارکنان اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین، امریکی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین اور امریکہ کے آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ منشیات کی اسمگلنگ کے مشتبہ جہازوں پر حملے، جن کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، کو "قانونی طریقہ کار سے ہٹ کر ہونے والی پھانسیاں” اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ نیز، وینزویلا حکومت کے لیے "غیر ملکی دہشت گرد تنظیم” کا عنوان استعمال کرنا فوجی اقدامات کو جائز ٹھہرانے کی کوشش ہے، جبکہ امریکی آئین کے تحت صرف کانگریس جارحانہ کارروائیوں کے لیے فوجی افواج کے استعمال کی منظوری دے سکتی ہے۔
ممکنہ منظرنامے
موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے، وینزویلا کے مستقبل کے لیے کئی منظرنامے قابل تصور ہیں:
• محدود فوجی حملہ: ماہرین کا خیال ہے کہ وسیع پیمانے پر زمینی حملے کا امکان کم ہے، لیکن ہدف شدہ فضائی اور میزائل حملے انفراسٹرکچر اور فوجی نیٹ ورکس پر ہو سکتے ہیں۔
• مذاکرات اور سفارتی دباؤ: ٹرمپ نے فوجی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ مادورو سے مذاکرات کا بھی ذکر کیا ہے۔ مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی کشیدگی کم کرنے یا مادورو کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
• کشیدگی اور علاقائی بحران کا تسلسل: امریکی فوجی موجودگی کا تسلسل، معاشی اور سفارتی دباؤ کے ساتھ، بحران کو طول دے سکتا ہے اور ہمسایہ ممالک، خاص طور پر کولمبیا اور برازیل پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
نتیجہ
وینزویلا کا بحران صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی کی پیچیدگی کی ایک واضح مثال ہے۔ فوجی دھمکیوں، سفارتی دباؤ، خفیہ کارروائیوں اور میڈیا اسٹریٹیجی کا مجموعہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنے جغرافیائی سیاسی اور معاشی اهداف حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ قانونی، داخلی اور بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ مادورو مسلح افواج اور عوامی تحریک کی حمایت پر انحصار کرتے ہوئے اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی تک ہتھیار ڈالنے کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس بحران کا مستقبل، واشنگٹن کے فیصلوں اور وینزویلا اور علاقائی اتحادیوں کے رد عمل پر منحصر ہے، جو کشیدگی بڑھانے یا مذاکرات کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے، لیکن اب تک بحران کے حل کا کوئی واضح راستہ نظر نہیں آرہا۔

مشہور خبریں۔

چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ کیا کرے گا؟

?️ 19 ستمبر 2023سچ خبریں: امریکی فوج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین نے

زیلنسکی اور کیر اسٹارمر کے درمیان لندن میں ملاقات

?️ 25 اکتوبر 2025سچ خبریں: یوکرین کے صدر وولوڈیمیر زیلنسکی نے لندن میں یوکرین کے

امریکی منصوبہ؛ غزہ کی انتظامیہ اور فلسطینی خودمختاری پر پابندیاں

?️ 20 نومبر 2025سچ خبریں: سلامتی کونسل کے قرارداد 2803 کے ذریعے پیش کیا گیا امریکہ

عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر کوئی پابندی نہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

?️ 5 جون 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے

سمندر کے راستے غزہ کی امداد حقیقت یا مریکی دھوکہ

?️ 11 جون 2024سچ خبریں: فلسطینی خبر رساں ایجنسی شہاب نے اپنی رپورٹ میں سمندر

شہباز گل کا اہم بیان،وزیر اعظم میں کورونا وائرس کی علامات شدید نہیں ہیں

?️ 20 مارچ 2021اسلام آباد(سچ خبریں)وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز

تل ابیب کا امریکہ سے ایران کے خلاف علاقائی اتحاد تشکیل دینے کا مطالبہ

?️ 14 جون 2022سچ خبریں:  اسرائیل کے جنگی وزیر بینی گانٹز نے آج منگل کو

عازمین حج کو فائزر ویکسین لگایا جائے گا

?️ 2 جون 2021اسلام آباد (سچ خبریں) قومی ادارہ صحت نے پہلے مرحلے میں فائزر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے