کراچی: (سچ خبریں) سینیئر اداکار کاشف محمود نے انکشاف کیا ہے کہ بطور پروڈیوسر انہوں نے پہلا ڈراما بنانے کے لیے جہاں درجنوں لوگوں سے قرضہ لیا، وہیں انہوں نے گھر اور والدہ کے زیور تک ’گروی‘ رکھے تھے۔
کاشف محمود نے حال ہی میں مزاحیہ پروگرام ’مذاق رات‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ گھر کے سب سے بڑے بچے تھے، اس لیے ان پر ذمہ داریاں بھی زیادہ تھیں لیکن اس باوجود والدین نے ان پر سختیاں نہیں کیں اور انہیں اپنی پسند کا کام کرنے دیا۔
اداکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے کیریئر کے آغاز میں بہت مشکلات دیکھیں، پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ایک ڈرامے میں ان کا صرف ایک منظر شامل کیا گیا لیکن اس میں بھی ان کا چہرہ نہیں دکھایا گیا تھا بلکہ صرف ان کا پچھلا حصہ دکھایا گیا اور وہ لوگوں کو بتاتے رہے کہ جس شخص کا چہرہ نظر نہیں آ رہا، وہ وہی ہیں۔
کاشف محمود کے مطابق انہوں نے بطور ’ایکسٹرا‘ اداکار کیریئر کا آغاز کیا تھا، یعنی انہیں صرف ہیرو کے پیچھے نظر آنے والے افراد کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ ڈرامے میں ریشم اور سلیم شیخ نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
ایک اور سوال کے جواب میں کاشف محمود نے کیریئر کے آغاز میں اپنی مالی مشکلات کا ذکر کیا اور بتایا کہ انہوں نے پہلا ڈراما بنانے کے لیے نہ صرف قرضہ لیا بلکہ گھر اور والدہ کے زیور تک ’گروی‘ رکھے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ’آشیانہ‘ نام سے ڈراما بنایا اور ایک ٹی وی چینل کے مالک کے پاس گئے جنہوں نے ان سے ڈراما نہیں خریدا، اس کے بعد انہوں نے مذکورہ ڈراما اداکارہ و ہدایت کارہ بدر خلیل کو بھیجا، جنہوں نے دیکھنے کے بعد ان کے ڈرامے کو ’سپر ہٹ‘ قرار دیا۔
ان کے مطابق بدر خلیل نے ہی ان کا ڈراما کسی ٹی وی چینل کو فروخت کیا اور ان کا ڈراما ایک ٹی وی چینل پر چلا لیکن بعد میں وہ ٹی وی چینل بند ہوگیا اور انہیں پیسے بھی نہیں ملے، پھر وہ ٹی وی چینل دوبارہ کھلا لیکن انہیں پیسے آج تک نہیں ملے۔
کاشف محمود کا کہنا تھا کہ مذکورہ ڈرامے کو بنانے کے لیے انہوں نے بہت سارے افراد سے قرضہ لے رکھا تھا، جس پر انہوں نے ایک سڑک سے گزرنا بھی بند کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بعد ازاں انہوں نے مذکورہ ڈرامے کو پی ٹی وی پر چلایا اور خود ہی اس کی مارکیٹنگ بھی کی، جس پر انہیں اتنے پیسے ملے کہ انہوں نے پورا قرضہ اتارا اور انہیں 7 لاکھ روپے کی بچت بھی ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے مالی مشکلات اور تکالیف کو برداشت کیا لیکن اس باوجود والدین انہیں کچھ نہیں بولتے تھے۔