اسرائیل کی ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی کی واضح مثال ہے: اٹلی کے تجزیہ کار

اسرائیل

?️

سچ خبریں: ولیو چیناپی، اطالوی مصنف اور سیاسی تجزیہ کار، کا ماننا ہے کہ صہیونی ریاست خطے پر مکمل تسلط کے لیے منظم طور پر ٹارگٹڈ قتل، اجتماعی سزاؤں اور فوجی حملوں کا استعمال کر رہی ہے تاکہ عرب اور ایرانی عوام کی مزاحمت کو کچلا جا سکے۔
ان کے مطابق، ایران پر حالیہ حملے خطے کو غیر مستحکم کرنے، مستقل اپارتھائیڈ مسلط کرنے اور علاقائی خودمختاری کو ختم کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے امریکہ کے کردار پر بھی سخت تنقید کی، جو نہ صرف اسرائیل کے جرائم کی حمایت کر رہا ہے بلکہ ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے میں براہِ راست ملوث بھی ہے۔ چیناپی نے بین الاقوامی اداروں کے دوہرے معیارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عالمی سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل اور امریکہ کی فوجی صنعتوں پر پابندیاں عائد کریں اور مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
سوال: حالیہ دنوں میں، دنیا نے اسرائیلی ریاست کے ایران اور اس کے عوام کے خلاف جارحانہ اقدامات دیکھے ہیں۔ آپ کے خیال میں، یہ ریاست غزہ، لبنان اور ایران میں بے دفاع شہریوں کے خلاف ایسے مظالم کیوں کر رہی ہے؟ کون سے عوامل اسے ٹارگٹڈ قتل جیسے جرائم جاری رکھنے پر اکساتے ہیں؟
چیناپی: حالیہ دنوں میں، دنیا نے اسرائیلی ریاست کی ایران اور اس کے عوام کے خلاف اشتعال انگیز اور جارحانہ کارروائیاں دیکھی ہیں۔ ان مظالم کے پیچھے—خواہ غزہ کے بے رحمانہ بمباری ہو، لبنان پر بار بار حملے ہوں یا ایران کی سرزمین پر براہِ راست یورش—اسرائیل کے دعوؤں جیسے "تحفظ” یا "دفاع” کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ سب ایک منصوبہ بند تسلط اور خوف پھیلانے کی کوشش ہے۔
تل ابیب پر حکمران سیاسی اشرافیہ، واشنگٹن کی حمایت سے، عرب اور ایرانی عوام کو اپنے سامراجی عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے اور "وجودی خطرے” کے نعرے کو زندہ رکھ کر اپنی فوجی توسیع کو جواز فراہم کرتی ہے۔ ایرانی کمانڈروں اور سائنسدانوں کے ٹارگٹڈ قتل بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں—یہ داخلی مزاحمت کو کمزور کرنے اور معاشرے میں خوف پھیلانے کی کوشش ہے۔
سوال: اسرائیلی ریاست کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران کے جوہری اور میزائل پروگراموں کو نشانہ بنا رہی ہے، لیکن عملاً اسپتالوں، انفراسٹرکچر اور میڈیا مراکز کو بمباری کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہلاک ہوتے ہیں۔ یہ تضاد کیسے واضح کیا جا سکتا ہے؟ ان اقدامات کا حقیقی مقصد کیا ہے؟
چیناپی: جب تل ابیب کا دعویٰ ہے کہ وہ ایران کے "جوہری اور میزائل پروگرام” کو نشانہ بنا رہا ہے، تو وہ جانتا ہے کہ یہ بہانے بین الاقوامی دستاویزات کے سامنے نہیں ٹکتے—کیونکہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے بارہا تصدیق کی ہے کہ ایران کا کوئی بھی جوہری ہتھیار بنانے والا سائٹ نہیں۔ ان حملوں کے اصل شکار فوجی تنصیبات نہیں بلکہ خواتین، بچے، طبی عملہ، مریض اور صحافی ہیں جو تباہ شدہ اسپتالوں، ملیامیٹ ہونے والے بچوں کے وارڈز اور تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسرائیل کا حقیقی مقصد ایک خیالی خطرے کو روکنا نہیں بلکہ عرب اور ایرانی عوام کو اجتماعی سزا دینا، علاقائی تسلط قائم کرنا اور ایک مستقل اپارتھائیڈ نظام مسلط کرنا ہے۔
سوال: اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے جنگی جرائم کی دستاویزات موجود ہونے کے باوجود، مغربی ممالک سیاسی اور فوجی طور پر اس کی حمایت کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں، مغرب ان جرائم پر خاموش کیوں ہے؟
چیناپی: اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے اداروں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی جنگی جرائم کی واضح دستاویزات کے باوجود، مغربی حکومتیں اسلحہ کی ترسیل، سفارتی حمایت اور سلامتی کونسل جیسے اداروں میں سیاسی پشت پناہی کے ذریعے اس کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خاموشی، جو درحقیقت رضامندی کی علامت ہے، اقتصادی اور استعماری مفادات کی وجہ سے ہے۔
امریکی اور یورپی فوجی صنعتیں اسرائیل کو جنگی طیارے، میزائل اور گولہ بارود فروخت کر کے بھاری منافع کما رہی ہیں۔ اسرائیل واشنگٹن کے لیے ایک اہم آلہ کار ہے تاکہ فلسطینی، لبنانی اور ایرانی خودمختاری کو کچلا جا سکے۔ نتیجتاً، "انسانی حقوق” اور "جمہوری اقدار” کے نعرے حقیقت پسندی کے سامنے ہیچ ہو چکے ہیں۔
سوال: مغربی میڈیا اکثر اسرائیلی ریاست کے اقدامات کو "خود دفاع” کے طور پر پیش کرتا ہے، جبکہ غزہ، لبنان اور ایران میں شہریوں کے قتل عام اور ٹارگٹڈ قتل کو نظرانداز کرتا ہے۔ آپ اس میڈیا تعصب کو کیسے دیکھتے ہیں اور اس کے خلاف کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
چیناپی: بی بی سی، سی این این، نیو یارک ٹائمز، لوموند اور گارڈین جیسے بڑے مغربی میڈیا ادارے اسرائیلی کارروائیوں کو "خود دفاع” کے طور پر پیش کرتے ہیں اور بغیر کسی سوال کے اسرائیلی روایت کو دہراتے ہیں، جبکہ غزہ، لبنان اور ایران میں شہریوں کے قتل عام اور ٹارگٹڈ قتل کو نظرانداز کرتے ہیں۔
اس تحریف کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام اسرائیلی جرائم کی گہرائی سے بے خبر ہیں۔ اس تعصب کے خلاف آزاد میڈیا کو مضبوط کرنا ہوگا، میدانی صحافیوں کی آواز کو پھیلانا ہوگا، عینی شاہدین کی رپورٹس کو فوری ترجمہ کرکے تقسیم کرنا ہوگا اور سوشل میڈیا کے ذریعے میڈیا کے اجارہ داری کو توڑنا ہوگا۔
سوال: آپ کے خیال میں، اسرائیلی ریاست کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کا طویل المدتی مقصد کیا ہے؟ یہ عزائم خطے کے پڑوسی ممالک کے لیے کس طرح خطرہ ہیں؟
چیناپی: اسرائیلی ریاست کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیاں "امن” یا "باہمی شناخت” کے بجائے خطے پر مکمل تسلط کے لیے ہیں: بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قبضے سے لے کر غزہ پٹی پر عملی کنٹرول اور ایران اور اس کے اتحادیوں کے کردار کو ختم کرنے تک۔ یہ نواستعماری نقطہ نظر لبنان، شام، عراق اور ترکی جیسے پڑوسی ممالک کی استحکام کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور براہِ راست یا پراکسی جنگوں کے خطرے کو بڑھا رہا ہے۔
اسرائیل کے طویل المدتی اهداف میں پانی اور توانائی کے وسائل پر کنٹرول، فلسطینی اور ایرانی قومی شناخت کو مٹانا، اور تمام اسلامی یا قوم پرست تحریکوں کو سفارتی طور پر الگ تھلگ کرنا شامل ہے۔
سوال: ایران اور بے گناہ شہریوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے حالیہ حملوں پر آپ کی ذاتی ردعمل کیا ہے؟ آپ عوام کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
چیناپی: ایران پر حالیہ حملوں اور بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر میری ذاتی ردعمل شدید غصہ اور گہرے دکھ کی ہے۔ یہ دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ خواتین، بزرگ اور معصوم بچے سیاست دانوں کے مجرمانہ فیصلوں کی قیمت اپنی جانوں سے ادا کر رہے ہیں۔ میری سوچیں ان کے ساتھ ہیں۔
میرا پیغام یہ ہے: کوئی فوجی طاقت ان لوگوں کے غرور کو ختم نہیں کر سکتی جو اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑ رہے ہیں۔ میں تمام مخلص حکومتوں، عالمی سول سوسائٹی اور ضمیر رکھنے والے انسانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس جنون کو روکنے، خاموشی کی دیوار کو توڑنے اور مجرموں پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے متحد ہوں۔ جب تک ایران، فلسطین اور لبنان کے عوام کے لیے انصاف نہیں ملتا، مشرق وسطی میں حقیقی امن اور دنیا کی سلامتی ممکن نہیں۔
سوال: امریکہ نے اسرائیلی جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بار بار ویٹو کیا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں، امریکی پالیسیاں اس جارحیت کو جاری رکھنے کا باعث ہیں؟ دونوں ریاستوں کو جوابدہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
چیناپی: یقیناً، امریکہ کا سلامتی کونسل میں اسرائیلی جرائم کی مذمت کرنے والی قراردادوں کو ویٹو کرنا، ایک ایسی ریاست کو بچانے کے مترادف ہے جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر معمولی سرزنش سے بھی بچانا، درحقیقت مزید جارحیت کی راہ ہموار کرنا ہے۔ امریکی پالیسی نہ صرف غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کو جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ اب ایران پر بمباری تک پھیل چکی ہے—بغیر کسی نتائج کے۔
اس بے حس چکر کو توڑنے کے لیے، دونوں ریاستوں کو آزاد بین الاقوامی اداروں کے تحت لانا ہوگا: سلامتی کونسل کو ان کے رہنماؤں کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کرنا چاہیے، اور جنرل اسمبلی کو خصوصی ٹریبونل قائم کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی، مغربی حکومتیں جو اسلحہ فروخت، سفارتی حمایت اور ویٹو کے ذریعے ان جرائم کو ممکن بنا رہی ہیں، ان پر بھی عالمی پابندیاں عائد ہونی چاہئیں اور ان کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔
سوال: اسرائیلی ریاست کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف فوجی اہداف کو نشانہ بناتی ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں: حملوں کا شکار زیادہ تر غیر فوجی علاقے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال غزہ میں واضح ہے، جہاں بچوں کی بڑی تعداد ہلاک یا معذور ہو چکی ہے۔ ایران پر حالیہ حملوں میں بھی زیادہ تر ہلاکتیں خواتین، بچوں اور عام شہریوں کی ہوئی ہیں۔ آپ کے خیال میں، اسرائیل کا غیر فوجیوں کو نشانہ بنانے کا حقیقی مقصد کیا ہے؟
چیناپی: غیر فوجیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا، اسرائیلی ریاست کے حقیقی مقصد کو ظاہر کرتا ہے: عوام میں خوف و ہراس پھیلانا، نہ کہ صرف "فوجی طاقت” کو کمزور کرنا۔ غزہ میں اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جبکہ زخمی اور یتیم بچے پیچھے رہ گئے ہیں۔
ایران میں بھی، حالیہ حملوں میں رہائشی علاقوں اور میڈیا دفاتر کو نشانہ بنایا گیا، جس میں خواتین اور بچے ہلاک ہوئے۔ یہ اجتماعی سزا کی حکمت عملی ہے تاکہ مزاحمت کو روکا جا سکے۔ یہ حکمت عملی خوف کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے، سماجی یکجہتی کو توڑنے اور مکمل تسلط قائم کرنے پر مبنی ہے—یہ ریاستی دہشت گردی کی خالص ترین شکل ہے، جس کا فوجی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں۔
سوال: اسرائیلی جرائم کے خلاف عالمی احتجاج دن بدن بڑھ رہا ہے۔ آپ کے خیال میں، اس عالمی یکجہتی کو اسرائیل پر حقیقی سیاسی اور معاشی دباؤ میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟
چیناپی: لندن سے دہلی، بیونس آئرس سے جوہانسبرگ تک، عالمی احتجاجی تحریکیں ظاہر کرتی ہیں کہ اخلاقی غصہ سرحدوں سے ماورا ہے۔ اس یکجہتی کو موثر دباؤ میں بدلنے کے لیے، کارکنوں اور سول سوسائٹی کو اسرائیلی اور امریکی فوجی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے، کلیدی شخصیات کے اثاثے منجمد کرنے اور تجارتی و فوجی تعاون معطل کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ سرمایہ کاری بائیکاٹ مہمزات کو ریٹائرمنٹ فنڈز، بینکوں اور یونیورسٹیوں کو نشانہ بنانا چاہیے جو ان جرائم میں ملوث ہیں۔ نیز، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرنے اور امریکی ویٹو کی ہر فورم پر مذمت کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
سوال: بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی رہنماؤں کو جنگی جرائم اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے الزام میں ہیگ جیسی بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمہ چلانا چاہیے۔ تاہم، اب تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہوا۔ آپ کے خیال میں، عالمی برادری نے اس معاملے میں فیصلہ کن اقدامات کیوں نہیں اٹھائے؟
چیناپی: اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف کوئی سنجیدہ قانونی کارروائی نہ ہونا—دستاویزات اور شواہد کے انبار کے باوجود—جیوپولیٹیکل دوہرے معیارات کی وجہ سے ہے۔ اسرائیل، بڑی طاقتوں کی حمایت سے، عملاً قانون سے بالاتر ہے۔ نتانیاہو، کاتز یا آیزنکوٹ کو ہیگ کی عدالت میں پیش کرنے کی درخواستیں بار بار مغربی اثر و رسوخ کی وجہ سے ناکام ہوئی ہیں۔
اس بن بست کو ختم کرنے کے لیے، عالمی برادری کو "عالمی دائرہ اختیار” کے اصول کو اپنانا چاہیے: یورپ، لاطینی امریکہ یا افریقہ کی قومی عدالتیں ملزمان کے خلاف مقدمہ چلا سکتی ہیں اور گرفتاری کے وارنٹ جاری کر سکتی ہیں۔ سول سوسائٹی کو عدالتی نظام پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ بین الاقوامی سیاسی اداروں کے بن بست سے بچا جا سکے۔
سوال: سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے، اسرائیلی ریاست اور اس کی خفیہ ایجنسیاں سیاسی اور فوجی شخصیات—خاص طور پر تنقید کرنے والوں اور مخالفین—کا ٹارگٹڈ قتل ایک حکمت عملی کے طور پر کرتی آ رہی ہیں۔ آپ کے خیال میں، یہ ریاست اس پالیسی پر اتنا انحصار کیوں کرتی ہے؟ اور آپ اس "ریاستی دہشت گردی” کو کیسے دیکھتے ہیں؟
چیناپی: قتل، اسرائیل کے قیام سے پہلے کے دور سے لے کر موساد اور اسرائیلی فوج کی خصوصی کارروائیوں تک، صہیونی پالیسی کا ایک اہم ستون رہا ہے۔ تنقید کرنے والوں اور "ممکنہ دشمنوں” کو جسمانی طور پر ختم کر کے، اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں کے خلاف کسی بھی چیلنج کو پہلے ہی ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ منظم ٹارگٹڈ قتل—خواہ فلسطینی رہنما ہوں، لبنانی کمانڈر ہوں یا ایرانی سائنسدان—ریاستی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ اقدامات قومی خودمختاری اور انصاف کے اصولوں کو پامال کرتے ہیں۔ اسے واضح طور پر اس کے اصل نام سے پکارنا چاہیے: غیرقانونی قتل۔
صرف ان جرائم کو بے نقاب کر کے ہی عالمی عدالتی نظام جیسے عالمی دائرہ اختیار کی عدالتیں، انٹرپول کے سرخ نوٹس، اور جنگی جرائم کے مقدمات کو فعال کیا جا سکتا ہے اور اس خوف کے راج کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
سوال: اسرائیلی ریاست غیرقانونی طور پر جوہری ہتھیار رکھتی ہے اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے معائنے سے انکار کرتی ہے، لیکن ساتھ ہی ایران کو جوہری خدشات کے بہانے نشانہ بناتی ہے۔ کیا یہ عالمی نظام میں دوہرے معیارات کی واضح مثال نہیں؟ آپ کے خیال میں، عالمی برادری کو اس بے نقاب منافقت سے کیسے نمٹنا چاہیے؟
چیناپی: اس سے بڑھ کر دوہرے معیارات اور کیا ہو سکتے ہیں: اسرائیل خود خفیہ جوہری ہتھیاروں کا انبار رکھتا ہے، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور IAEA کے معائنے کو مسترد کرتا ہے، لیکن ایران پر ایک "خیالی بم” کے خلاف حملے کرتا ہے۔ یہ دوہرے معیارات ایک ایسے عالمی نظام کی نشاندہی کرتے ہیں جو طاقتوروں کے مفادات کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔
عالمی برادری کو قانون کے اس انتخابی اطلاق کو مسترد کرنا چاہیے: IAEA کے اختیارات کو تمام جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے معائنے کے لیے مضبوط بنایا جائے، اسرائیل سے شفافیت کا مطالبہ کیا جائے، اور جوہری ہتھیار رکھنے والے کسی بھی ملک کو جو معائنے سے انکار کرے، "غیر قانونی” قرار دیا جائے۔ صرف اصولوں کو یکساں طور پر—بغیر کسی استثناء کے—نافذ کر کے ہی عالمی سلامتی کے نظام پر اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔
سوال: ایران کے جوہری تنصیبات پر امریکہ کے حالیہ حملے کا بین الاقوامی نظام، IAEA کی ساکھ اور خطے کی استحکام کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟
چیناپی: امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری تنصیبات پر حالیہ بمباری بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے رکن ملک کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ واشنگٹن نے فردو، نطنز اور اصفہان کو تباہ کرنے کی اسرائیلی مہم میں شمولیت اختیار کر کے آخری دیپلومیٹک پردے بھی ہٹا دیے ہیں اور ظاہر کر دیا ہے کہ وہ "پھیلاؤ کے خلاف” کے بہانے مکمل جنگ چھیڑنے کو تیار ہے۔
اس اقدام نے نہ صرف IAEA کے اختیارات کو مشکوک بنا دیا—جس نے ایران کے قریب الوقوع جوہری ہتھیار پروگرام کا کوئی ثبوت نہیں پایا—بلکہ ایک خطرناک مثال قائم کی ہے کہ فوجی طاقتیں جو بھی ملک "خطرہ” سمجھیں، بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز کر کے اس پر حملہ کر سکتی ہیں۔
یہ دعویٰ کہ یہ حملے "بہت کامیاب” رہے اور ایران کو "صلح کرنی چاہیے” یا مزید بڑے حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے، درحقیقت ایک خفیہ الٹی میٹم ہے: یا تو امریکہ اور اسرائیل کی شرائط مانو، یا تباہ ہو جاؤ۔ ایسے خطرات کسی بھی حقیقی مذاکرات کی امید ختم کر دیتے ہیں، تہران کے موقف کو مزید سخت بنا دیتے ہیں، اور خطے کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ، جو لوگ غیر فوجی علاقوں میں بم گرانے کے ذمہ دار ہیں، انہیں جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے: اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی علاقوں کو دنیا کے طاقتور ترین ہتھیاروں سے حملے میں "ضمنی نقصان” نہیں سمجھا جا سکتا۔ مغربی حکومتوں—بشمول امریکہ کے اہم اتحادیوں—کی خاموشی یا حمایت اس جرم کو اور گہرا کرتی ہے اور ان لوگوں کی ملوثیت کو ظاہر کرتی ہے جو انسانی حقوق کے دعوے دار ہیں لیکن ان جرائم کی مالی اور سیاسی حمایت کر رہے ہیں۔
ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے، امریکہ نے نہ صرف پھیلاؤ کے خلاف اپنے دعوؤں کی نفی کی بلکہ ان اصولوں کو بھی توڑ دیا جو ہم سب کی حفاظت کرتے ہیں۔ حقیقی سلامتی بمباری اور دہشت گردی سے نہیں، بلکہ شفاف، قابل تصدیق اور اجتماعی اداروں کے ذریعے نافذ کیے گئے معاہدوں سے ملے گی—نہ کہ قانون سے بالاتر بمبار طیاروں سے۔

مشہور خبریں۔

برآمدات پرمبنی ترقی ہی واحد راستہ ہے، وزیرخزانہ

?️ 13 مئی 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) وفاقی وزیر خزانہ، سینیٹر محمد اورنگزیب سے معروف

یمن پر امریکی حملے کے دوران ٹرمپ کا متکبرانہ انداز

?️ 16 مارچ 2025 سچ خبریں:امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے یمن پر جاری وحشیانہ

واٹس ایپ پر نئے فیچر کا اضافہ

?️ 11 جولائی 2023سچ خبریں: واٹس ایپ اینڈرائیڈ صارفین کے لیے دلچسپ فیچر متعارف کرنے

لاہور: فیشن ڈیزائنر کو 30 دن کیلئے نظر بند کرنے کے احکامات جاری

?️ 17 نومبر 2023لاہور: (سچ خبریں) ڈپٹی کمشنر لاہور نے امن و امان کی صورتحال

ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت پر سرکاری ملازمین کو تنخواہ ملے گی یا پنشن؟ حکومت نے فیصلہ کرلیا

?️ 28 اپریل 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) ملک میں ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت پر

غزہ کے ہسپتال پر  وحشیانہ حملے کے بعد مسلمان حکومت کس چیز کی منتظر ہیں ؟

?️ 18 اکتوبر 2023سچ خبریں:غزہ کے المعمدانی اسپتال میں صیہونی حکومت کی جانب سے کیے

دنیا میں متحدہ عرب امارات اورفرانس کی شراکت داری کے راز

?️ 1 نومبر 2021سچ خبریں: متحدہ عرب امارات اور فرانس کے درمیان ایک مشکوک کثیر سطحی

ایران اور روس نے مغرب کے خلاف ایک نیا اتحاد بنا لیا ہے: نیوز ویک

?️ 21 جولائی 2022سچ خبریں:    گزشتہ دنوں ترکی اور روس کے صدور کے دورہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے