سچ خبریں:اسرائیل میزائلوں سے گھرا ہوا ہے اور اس کے آہنی گنبد ناکام ہو چکے ہیں،درحقیقت یہ تباہی کا تیسرا مرحلہ ہے جس کے بارے میں سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا۔
آج فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے پاس نابلس سے لے کر جنین کیمپ تک ہر محلے اور علاقے میں قوت مدافعت ہے اور صیہونی حکومت ہر حملے کے ساتھ اپنے آپ کو مزاحمتی قوتوں کے گھیرے میں پاتی ہے۔ اس کے بعد ان بہادرانہ کاروائیوں کا اضافہ کریں جو اب قابض افواج کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہیں، ان جیالوں نے صیہونی حکومت کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے،یہاں ہمیں مزاحمتی گروہ عرین الاسود کا ذکر کرنا چاہیے جو صیہونی فوجیوں میں دہشت کا سبب بنی ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کے آٹھویں عشرے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی فلسطین کی آزادی کے سلسلے میں فلسطینی عوام اور علاقے کے بہت سے لوگوں کی رائے مضبوط ہو گئی ہے ، یہ ایک امید اور آرزو ہے جو مقبوضہ فلسطینی سرزمین اور خطہ کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس لیے کہ مغربی کنارے میں نہ صرف اسرائیل مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام رہا بلکہ مزاحمت اپنے آپ کو صہیونی دشمن پر مسلط کرنے میں کامیاب رہی۔ اس لیے فلسطینی عوام نے بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے اپنے عزم کو دگنا کر دیا ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہے۔
اسی سلسلہ میں انٹرریجنل اخبار رائے الیوم کے چیف ایڈیٹر اور عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار عبدالباری کا کہنا ہے کہ شرم الشیخ سربراہی کانفرنس اور اس سے پہلے عقبہ سربراہی کانفرنس ایک بہت بڑی سازش تھی جس میں سب سے اہم اس مسلح بغاوت کو کچلنا ہے جو مقبوضہ فلسطین کے شمال بالخصوص نابلس اور جنین میں جاری ہے،اگر آپ غور کریں تو دو عرب ممالک مصر اور اردن مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی انتفاضہ کو ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے وہ ایک نیا سکیورٹی پلان تیار کرنا چاہتے ہیں جو امریکی جنرل وینزل کا تیار کردہ ہے، یہ نیا پلان جنرل ڈیٹن کے پرانے پلان جیسا ہی ہے اور اس کا مقصد مغربی کنارے میں مزاحمتی بریگیڈز سے نمٹنا ہے۔
عطوان نے مزید کہا کہ مصر اور اردن امریکی احکامات کو رد نہیں کر سکتے کیونکہ اردن کو امریکہ سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد ملتی ہے اور اس وقت اس ملک میں 16 امریکی اڈے ہیں جو جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں، خاص طور پر پیٹریاٹ میزائل سے اور ان اڈوں کا مقصد جنگ کی صورتحال میں ایران سے قابض حکومت کی طرف داغے جانے والے میزائلوں کا مقابلہ کرنا ہے،یہ اڈے اس لیے بنائے گئے تھے کہ صیہونی حکومت ایران کے بیلسٹک میزائلوں سے تباہ ہو جائے گی۔ اس لیے انھوں نے یہ اڈے اردن میں بنائے ہیں اور اس ملک کا ان اڈوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور نہ ہی اردنی حکام وہاں موجود فوجیوں کی تعداد جانتے ہیں۔
عطوان نے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں ہتھیار اس وقت بہت پھیل چکے ہیں جس کا مطلب ہے کہ دشمن کی تمام سازشیں اور منصوبے ناکام ہو چکے ہیں جبکہ مغربی کنارے میں نئے مزاحمتی گروپوں کے ذریعے استعمال ہونے والے زیادہ تر ہتھیار مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں، اس وقت فلسطین کے تمام ہمسایہ علاقے خطرے کی زد میں ہیں، اردن اپنی سلامتی سے خوفزدہ ہے کیونکہ اردن اور فلسطین کے عوام صیہونی حکومت اور اس کے منصوبے کے خلاف متحد ہیں اور کچھ عرصہ قبل ہم نے دیکھا کہ مقبوضہ بیت المقدس حکومت کے وزیر خزانہ اسموٹریچ کے ہاتھوں پیش کیے جانے والے نقشے سے اردن کو ہٹا دیا گیا اور اس نے اس بات پر زور دیا کہ صرف مشرقی اردن موجود ہے جبکہ مغربی اردن اسرائیل کا حصہ ہے اس لیے اردنی عوام بھی صیہونی حکومت کے مذموم منصوبوں سے پریشان ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ مل گئے ہیں، اس معاملے نے اردنی اور صہیونی حکام کو پریشان کر دیا ہے،اردن میں مقبوضہ علاقوں کے ساتھ 600 کلومیٹر طویل سرحد ہے جسے اگر صیہونیوں کے خلاف استعمال کیا گیا تو قابض حکومت کے وجود کو خطرہ ہو گا۔
عطوان نے کہا کہ اہم مسئلہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل اس وقت دہشت کی حالت میں ہے اس لیے کہ جنوبی غزہ کی پٹی سے لے کر گولان اور عراق تک ہر طرف سے مزاحمتی قوتوں میں گھرا ہوا ہے، اس کے علاوہ جنوبی لبنان میں تقریباً 150000 میزائل اور 30000 سے زیادہ ڈرون موجود ہیں، ان میزائلوں کی تمام ٹیکنالوجی اور انہیں بنانے کا طریقہ ایران سے آیا ہے، اسی وجہ سے اسرائیل ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے،بلاشبہ صیہونی حکومت نہ صرف اس لیے خوفزدہ ہے کہ ایران خطے میں ایک انتہائی ترقی یافتہ فوجی طاقت بن گیا ہے اور اس کے پاس سپرسونک میزائل ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ یمن میں انصاراللہ تحریک ہے، ایک ایسی تحریک جس کے پاس میزائل ہیں جو مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع ایلات تک پہنچ سکتے ہیں، اسی طرح الحشد الشعبی فورسز جن کے پاس میزائل اور ڈرون ہیں اور ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ انہوں نے کس طرح مشرقی فرات میں واقع امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا، خاص طور پر العمر اسکوائر میں، اور یہ ایک بہت بڑی بہتری ہے،ہم نے الحشد الشعبی کی طرف سے عراق شام سرحد پر واقع التنف امریکی فوجی اڈے پر بمباری کا مشاہدہ بھی کیا، یہ صورتحال اہم ہے کیونکہ اسرائیل میزائلوں کے محاصرے میں ہے اور اس کے آہنی گنبد ناکام ہو چکے ہیں، درحقیقت یہ تباہی کا تیسرا مرحلہ ہے اور اس میں سید حسن نصر اللہ صحیح تھے،اس وقت ہم مقبوضہ فلسطین سے برلن اور نیویارک کی جانب معکوس نقل مکانی دیکھ رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کا مکمل خاتمہ ہو رہا ہے اور نیتن یاہو کے خلاف زبردست اندرونی احتجاج اس کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔