اسلام آباد:(سچ خبریں) نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے محکمہ داخلہ نے وضاحت کی ہے کہ علاقے میں صورتحال ’مکمل طور پر پرامن‘ ہے۔
گزشتہ روز گلگت بلتستان کی حکومت نے فوج کی تعیناتی کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا، اور کہا تھا کہ پاکستان آرمی اور مسلح افواج کی خدمات صرف امن و امان برقرار رکھنے کے لیے طلب کی گئی ہیں جہاں امام حسین کا چہلم اگلے ہفتے ہوگا۔
تاہم متعلقہ حکام کی طرف سے مزید احکامات تک علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سروز معطل کردی گئی ہیں۔
یہ فیصلہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دو علمائے کرام کی جانب سے گزشتہ دنوں میں غیر حساس تبصروں کے بعد سامنے آیا ہے جس سے متعلقہ کمیونٹیز کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں مرتضیٰ سولنگی نے گلگت بلتستان کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کا حوالہ دیا جس میں واضح کیا گیا کہ پاکستان آرمی کی تعیناتی کے حوالے سے رپورٹس مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت میں تمام سڑکیں، تجارتی مراکز، کاروباری سرگرمیاں اور تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھلے ہیں۔
نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان آرمی اور مسلح افواج کی خدمات صرف امام حسین کے چہلم کے موقع پر امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے طلب کی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امام بارگاہوں اور ماتمی جلوسوں کی سیکیورٹی کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ گلگت کے محکمہ داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ امن و امان برقرار رکھنے، لوگوں کے جان و مال کے تحفظ اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پورے خطے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ یکم ستمبر کو صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب ممتاز عالم دین مولانا قاضی نثار احمد کی جانب سے مبینہ طور پر توہین آمیز بیان دینے کے چند گھنٹے بعد انجمن امامیہ کی کال پر گلگت شہر اور گردونواح میں مظاہرے کیے گئے تھے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے ایک اہلکار نے بتایا کہ مولانا قاضی نثار احمد کے خلاف سٹی پولیس اسٹیشن گلگت میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے، جبکہ آغا باقر الحسینی کے خلاف ایک اور ایف آئی آر اسکردو میں پہلے ہی درج کی جا چکی ہے۔
چلاس، دیامر میں مظاہرین کی طرف سے تین دن تک قراقرم ہائی وے اور بابوسر پاس بند کرکے آغا باقر کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوگئے۔
بعدازاں استور اور گلگت میں بھی شدید مظاہرے شروع ہوگئے جو کہ آغا باقر پر مقدمہ درج ہونے کے بعد ختم کیے گئے۔
تاہم معاملہ مزید طول پکڑ گیا اور اسکردو میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی، مظاہرین نے 25 اگست کو جگلوٹ-اسکردو روڈ اور دیگر راستوں کو بھی بلاک کر دیا۔
حکومت نے سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ پوسٹس شیئر کرنے کے الزام میں دو پولیس اہلکاروں اور ایک اسکول ٹیچر کو معطل کر دیا اور متنازع پوسٹ کرنے پر 12 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔
گزشتہ روز برطانیہ نے کینیڈا اور امریکا کے بعد اپنے شہریوں کو شمالی علاقوں کا دورہ کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔
امریکی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسکردو اور دیامر میں حالیہ مظاہروں اور علاقے میں مقامی موبائل اور انٹرنیٹ نیٹ ورکس کی بندش، سڑکوں کی بندش اور اس سے منسلک رکاوٹوں کی وجہ سے امریکی شہریوں کو گلگت میں زیادہ احتیاط برتنی چاہیے۔