لاہور ( سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو ہٹائے جانے کا فیصلہ تین اگست کو ہی کر لیا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 5 اگست کو مزید دو ہفتوں کا وقت دیا لیکن مہلت ملنے کے باوجود دونوں افسران اپنی کارکردگی میں نمایاں بہتری نہیں لا سکے، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا جس کے بعد انہیں تبدیل کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ سابق چیف سیکرٹری نے چند ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی کی سفارش بھی کی تھی۔ لیکن تعینات کیے جانے والے ڈپٹی کمشنرز کی کارکردگی بھی مایوس کُن ہی رہی۔
سابق چیف سیکرٹری کو جو ٹاسک دئے گئے تھے وہ پورے نہیں کر پائے جبکہ وزیراعلیٰ آفس کے ساتھ بھی ان کے معاملات چلتے رہے۔ جواد رفیق پر اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں کنٹرول نہ کرنے کا بھی الزام عائد ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جواد رفیق ملک سول سیکرٹریٹ بھی بہت کم آتے تھے۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب پر اراکین اسمبلی سے نہ ملنے کا بھی الزام تھا۔واضح رہے کہ حکومت پنجاب نے بڑے انتظامی عہدوں پر تبدیلیاں کرنے کے لیے نئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی تعیناتی کے لیے پینل تیارکیا تھا۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پولیس کے ناموں کی سمری وزیراعظم کو بھجوا ئی گئی تھی ۔
سمری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس کو ارسال کی گئی ۔ چیف سیکرٹری کے لیے کامران افضل، بابرحیات تارڑ اور احمد نواز سکھیرا کا نام شامل تھے جبکہ آئی جی پنجاب کے لیے راؤ سردار، ظفر اقبال اور محسن بٹ کا نام بھجوایا گیا تھا ۔ تاہم گذشتہ روز وفاقی کابینہ نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کی تبدیلی کی منظوری دے دی تھی۔ چیف سیکرٹری پنجاب کے لیے کامران علی افضل جب کہ آئی جی پنجاب کے لیے ڈاکٹر سردار علی خان کے نام کی منظوری دی گئی۔
آئی جی پنجاب پولیس انعام غنی کے تبادلے کا فیصلہ کرتے راؤ سردار علی خان کو نیا آئی پنجاب تعینات کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ راؤ سردار علی مینجنگ ڈائریکٹر سیف سٹی اتھارٹی پنجاب ہیں۔ سیکرٹری صنعت و پیدوار اور ڈویژن کامران علی کا تبالہ کرتے ہوئے انہیں چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا گیا۔راؤ سردار گذشتہ تین سالوں میں تعینات ہونے والے چھٹے آئی جی پنجاب ہوں گے۔