اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے 24 نومبر کو اسلام آباد میں اعلان کردہ احتجاج کے دوران وفاقی دارالحکومت سے گرفتار 158 ملزمان کا مزید چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں احتجاج سےگرفتار ہونے والے کارکنان کا مزید جسمانی ریمانڈ انسداد دہشتگردی عدالت کے طاہر عباس سپرا نے منظور کیا۔
عدالت نے جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ملزمان کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا۔
28 نومبر کو اسلام آباد میں اعلان کردہ احتجاج کے دوران پنجاب کے شہر راولپنڈی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیے گئے 156 ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا تھا۔
راولپنڈی کے مختلف علاقوں صادق آباد، نیوٹاؤن اور دھمیال سے گرفتار 191 ملزمان کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی نے مقدمے کی سماعت کی، دوران سماعت عدالت نے 10 ملزمان کو تھانہ نیوٹاؤن میں درج مقدمے سے ڈسچارج کردیا گیا تھا جبکہ عدالت نے 156 ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور و دیگر پارٹی رہنماؤں اور سیکروں کارکنان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے 24 نومبر کے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں پر مختلف تھانوں میں مقدمات انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیے گئے۔
مظاہرین پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، مجمع جمع کرکے شاہراہوں کو بند کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
بدھ کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘