اسلام آباد:(سچ خبریں) عید الاضحیٰ سے چند دن قبل ہی پاکستان میں ایک دن میں عالمی وبا کورونا وائرس کے 675 نئے کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں جبکہ وائرس سے متاثر ہونے والوں کی قومی شرح 4.61 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
قومی ادارہ برائے صحت کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے 2 شہری جاں بحق ہوئے جبکہ اسی دوران 14 ہزار 632 ٹیسٹ کیے گئے اور ٹیسٹ مثبت آنے والے 153 مریضوں کی صورت حال تشویش ناک ہے۔
وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے آج میڈیا بریفنگ کے دوران نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 دنوں میں ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مثبت شرح پر حکومت فکرمند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح 1.5فیصد ہے جبکہ وینٹی لیٹر پر موجود مریضوں کی شرح 5 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر افراد کورونا وائرس کے نئی قسم اومیکرون سب ویریئنٹ سے متاثر ہوئے ہیں جس کی پھیلنے کی شرح تیز ہے۔
عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کورونا وائرس کے کیسز پر چوکس ہو کر ان کی نشان دہی کر رہا ہے اور ہم ہر قسم کی حالت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں کو آئسولیشن مراکز تیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی مذکورہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت خاص طور پر کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں وسیع پیمانے پر عوام کی کورونا ٹیسٹ کرنے کا سوچ رہی ہے، کراچی میں کورونا وائرس کی شرح پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں کراچی میں کورونا وائرس کی مثبت شرح کم ہوئی ہے اور اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لیے یہ درست وقت نہیں ہے۔
وفاقی وزیر صحت نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ تاحال لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو مذہبی تہوار عیدالاضحیٰ اور محرم آنے والے ہیں جن کے دوران کورونا کیسز کی شرح میں اضافے کا امکان ہے، انہوں نے عوام سے کہا کہ عید کی چھٹیوں کے دوران گھروں رہیں۔
قبل ازیں، حکومت نے تمام قریبی مقامات پر ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا ہے اور عوام سے گزارش کی ہے کہ ایسے تہوار کے دوران ایک دوسرے کے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے گریز کریں، دوسری جانب سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے بھی مقامی پروازوں میں سفر کرنے والے مسافروں کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیا ہے۔
دوسری جانب حکومتی عہدیداروں نے کورونا وائرس سے متاثرین کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرنے کے لیے ٹیسٹ کے عمل میں تاخیر کا الزام عائد کیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ عوام ناور صحت کے حکام دونوں نے ایک بار پھر کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز پر لاپرواہی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
کورونا وائرس پر سائنٹفک ٹاسک فورس کے رکن اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان کو بتایا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم وائرس کے ٹیسٹ سے زیادہ مثبت شرح پر زور دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نمونے لینے کے مختلف طریقوں کے مطابق ابتدائی طور پر ہر چوتھے یا پانچویں گھر اور دکان کو ڈیٹا میں شامل کیا جائے اور پھر وہاں موجود تمام لوگوں کا ٹیسٹ کیا جائے۔
ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے نمونے کا سائز مثبت شرح کے بجائے ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 30 فیصد لوگوں میں کبھی علامات ظاہر نہیں ہوئیں کیونکہ ان میں غیر علامتی کورونا وائرس ہوتا ہے اسی طرح وہ وائرس پھیلاتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کم ہوتا جا رہا ہے وہاں اس کی منتقلی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس لیے اب ہم بڑے پیمانے پر ٹیسٹ کروا کر ہی وائرس پر قابو پا سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر نے مزید کہا کہ میڈیا نے بھی کورونا وائرس کو اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے۔
دریں اثنا صحت کے قومی ادارے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کیسز کی تعداد ہر پانچ دن میں دوگنا ہو رہی ہے، ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور اموات بھی دوبارہ سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
ادارہ صحت کے عہدیدار نے کہا کہ اس پس منظر میں یہ تشویش ناک امر ہے کہ کراچی، اسلام آباد اور لاہور سے باہر کورونا کی ٹیسٹ میں بار بار تیزی کے باوجود بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
انہوں نے کہا کہ این سی او سی کو بند کرنا ایک بڑی غلطی تھی کیونکہ 2020 کی شروعات میں جیسے ہی کورونا وائرس کے متاثریں کے اعداد و شمار میں کمی آنے لگی تو گزشتہ حکومت نے اس ادارے کو بند کردیا جو کورونا وائرس پر ملک کے ردعمل کی نگرانی کر رہا تھا۔