واشنگٹن (سچ خبریں) افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے معاملے کو لے کر امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان سے اہم مطالبہ کرتے ہوئے افغانستان کو مستحکم کرنے کے لیئے ہر ممکنہ کوشش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی تمام فوجیوں کے انخلا کے بارے میں اپنے منصوبے کا خاکہ پیش کرتے ہوئے افغانستان کو مستحکم کرنے میں خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان سے تعاون طلب کرلیا، اس نئے منصوبے کے تحت 2 ہزار 500 امریکی اور 7 ہزار نیٹو اتحاد کے فوجی بتدریج افغانستان سے نکلیں گے، یہ منصوبہ یکم مئی سے شروع ہوگا اور 11 ستمبر کو اختتام پذیر ہوگا جو اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کی 20ویں برسی کا روز ہوگا جس کی وجہ سے افغانستان میں امریکا نے جنگ کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان، روس، چین، بھارت اور ترکی سے افغانستان کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہیں گے کیونکہ افغانستان کے مستحکم مستقبل میں ان سب کا مفاد ہے۔
قبل ازیں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے کی بنیاد پر افغانوں کے زیرقیادت افغانوں کی اپنے امن عمل کی ہمیشہ حمایت کرے گا۔
اسلام آباد سے جاری ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ سیکریٹری انٹونی بلنکن نے خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی مستقل کوششوں کا اعتراف کیا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کا وعدہ کیا۔
جہاں امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کے روز ہی اس منصوبے کے چند حصوں کے بارے میں بتایا تھا تاہم امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس سے براہ راست ٹیلی کاسٹ کی گئی اپنی تقریر میں اس کا باضابطہ اعلان کیا، جو بائیڈن نے کہا کہ ‘اس منصوبے کی طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تیاری کی جارہی تھی، انہوں نے یہ واضح کیا کہ ان کے منصوبے میں نیٹو کی افواج بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم 20 سال قبل ہونے والے ایک خوفناک حملے کی وجہ سے افغانستان گئے تھے تاہم یہ اس بات کی وضاحت نہیں کہ 2021 میں بھی وہاں کیوں رہنا چاہیے، ہم افغانستان میں اپنے افواج کی موجودگی میں توسیع کو جاری نہیں رکھ سکتے ہیں، انخلا کے لئے مثالی حالات پیدا ہونے کی امید ہے اور مختلف نتیجے کی توقع ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی افواج پہلے ہی افغانستان میں ضرورت سے زیادہ عرصہ قیام کرچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب میں چوتھا امریکی صدر ہوں جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کی صدارت کروں گا، دو ریپنلکنز، دو ڈیموکریٹس، اب میں اس ذمہ داری کو پانچویں صدر کی جانب نہیں بھیجوں گا، جو بائیڈن نے یاد دلایا کہ جب صدر براک اوباما اور وہ 2009 میں حلف اٹھانے والے تھے تو صدر کی ہدایت پر وہ افغانستان گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں افغانستان کی وادی کنڑ گیا، جو پاکستان کی سرحد پر ایک ناہموار، پہاڑی علاقہ ہے، اس سفر میں جو کچھ دیکھا اس سے میرے اس عزم کو تقویت ملی کہ صرف افغانوں کا ہی حق ہے کہ وہ اپنے ملک کی رہنمائی کریں اور زیادہ سے زیادہ اور نہ ختم ہونے والی امریکی فوجی قوت پائیدار افغان حکومت کو تشکیل یا اسے برقرار نہیں رکھ سکتی ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اس یقین کے ساتھ واپس آئے تھے کہ افغانستان میں امریکی موجودگی کو یہ یقینی بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے کہ نائن الیون کے حملے کی طرح کے واقعے کے لیے افغانستان سرزمین کا استعمال نہیں کیا جاسکے’۔
امریکی صدر نے اپنے فوجیوں کو وطن واپس لانے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ کیا، ہم نے اس مقصد کو پورا کیا، میں نے اور دیگر نے کہا کہ ہم اسامہ بن لادن کا پیچھا کریں گے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ جو بائیڈن نے سابق صدر مملکت جارج بش اور باراک اوباما سے انخلا کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا تھا اور انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اب فوجی دستوں کو واپس لانے کا وقت آگیا ہے۔