سچ خبریں: ایک تحقیق جس کے نتائج چند ہفتہ قبل سماجیات کے ایک سائنسی جریدے میں شائع ہوئے تھے اس میں ہالینڈ اور جرمنی میں پردہ کرنے والی خواتین کے خلاف کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
یہ تحقیق جس کے نتائج 9 جولائی کو سائنسی تحقیقی جریدے یورپین سوشیالوجیکل ریویو میں شائع ہوئےاس میں تین بڑی یورپی منڈیوں یعنی جرمنی اور سپین نیدرلینڈز میں ملازمتوں کے لیے درخواست دیتے وقت مسلم خواتین کے حجاب پہننے کے نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ۔
یہ سائنسی مضمون مرینا فرنانڈیز رینو سینٹر فار مائیگریشن اینڈ سوشل پالیسی، یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی سینئر محقق، ویلنٹینا ڈی سٹاسیو، یوٹریچٹ یونیورسٹی کے شعبہ بین الضابطہ سماجی علوم کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سوسن وٹ، سماجی ماہر نفسیات نے لکھا ہے۔ DeZIM تجرباتی لیبارٹری کے سربراہ۔ تحریر کے شعبے میں داخل ہے۔
اس تحقیق کو کرنے کے لیے محققین نے خواتین شرکاء کے ایک گروپ کا انتخاب کیا اور ان میں سے ہر ایک کے لیے ملازمت کی دو درخواستیں بھیجیں ایک پردہ والی تصویر کے ساتھ اور دوسری میں بغیر پردہ والی تصویر کے ساتھ۔
جن ملازمتوں کے لیے رضاکاروں کے ریزیومے بھیجے گئے تھے ان میں ہیئر ڈریسرز سے لے کر سیلز اسسٹنٹ، ریسپشنسٹ اور سیلز کے نمائندوں تک مختلف ملازمتیں شامل تھیں۔ مصنفین بتاتے ہیں کہ ان تمام ملازمتوں کے لیے اعلیٰ درجے کے گاہک کے رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہالینڈ میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں دیگر دو ممالک کے مقابلے زیادہ امتیازی سلوک ظاہر ہوا۔ اس ملک میں حجاب کے بغیر تصویر بھیجنے والے تقریباً 70% درخواست دہندگان کو آجر کی طرف سے مثبت رائے ملی اور انہیں انٹرویو اور ملازمت کے اگلے مراحل کے لیے مدعو کیا گیا۔ حجاب کے ساتھ تصاویر جمع کرانے والے درخواست دہندگان کے لیے مثبت فیڈ بیک کی شرح صرف 35% تھی۔