سچ خبریںاگرچہ سعودی عرب دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات خاص طور پر لبنان کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا دعوی کرتا ہے لیکن وہ اس ملک کے صدر کے انتخاب کے عمل میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
نئے سال کو دو ماہ گزر چکے ہیں جبکہ اس سال کے آغاز میں کم از کم لبنانیوں کو اپنے سیاسی بحران کے حل کے لیے کوئی پیش قدمی کرنی چاہیے تھی لیکن یہ ملک اب بھی سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر بے شمار معاملات میں گھرا ہوا ہے جبکہ بہت سے لوگ اس ملک کے صدر کے انتخاب میں غیر ملکی مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔
اگرچہ گذشتہ ہفتوں کے دوران پیرس میں امریکہ، سعودی عرب، قطر، مصر اور فرانس کی موجودگی میں ہونے والی 5 فریقی سربراہی کانفرنس کا لبنانی صدارتی معاملہ کے حل کے لیے کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا، تاہم اس ملک کے اندر بعض جماعتوں کا خیال ہے کہ 5 غیر ملکی اداکار لبنان میں سیاسی بحران کو سنبھال سکتے ہیں، خاص طور پر صدر کے انتخاب کی سطح پر کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے مزید کوشش، وقت اور بحث کی ضرورت ہے۔
لبنان کے باوثوق ذرائع نے اعلان کیا کہ سعودی عرب نے بغیر کسی کا نام بتائے لبنان کے مستقبل کے صدر کے لیے اپنی مطلوبہ پروفائل کا اعلان کر دیا ہے اور نہ ہی کوئی آپشن متعارف کرایا ہے، دوسری جانب مصریوں نے اعلان کیا کہ لبنان کی صدارت کے لیے ایسے موزوں امیدوار تلاش کرنا بہت مشکل ہے جس کا تعلق کسی جماعت یا گروہ سے نہ ہو، اس لیے بہتر ہے کہ اس ملک کے کسی سیاستدان کو صدارتی امیدوار کے طور پر متعارف کرایا جائے۔
رپورٹ کے مطابق سعودیوں نے المردہ تحریک کے سربراہ سلیمان فرنجیہ کی مخالفت کا اعلان کیا اور پیرس اجلاس میں سعودی نمائندے نے کہا کہ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم سلیمان فرانجیہ کو مسترد کرتے ہیں۔ اس تناظر میں مصر کے نمائندے نے جواب دیا کہ اب ہمیں لبنان کی صدارت کے لیے دو سنجیدہ امیدواروں سلیمان فرنجیہ اور اس ملک کی فوج کے کمانڈر جوزف عون کا سامنا ہے ، تاہم لبنانیوں پر کوئی آپشن نہیں تھونپا نہیں جا سکتا۔
واضح رہے کہ سعودیوں نے یہ کہتے ہوئے اصرار کیا کہ فرنجیہ کو لبنان کی صدارتی لڑائی میں شریک نہیں ہونا چاہیے اس بات پر زور دیا کہ ہم اس مقصد کے لیے واحد امیدوار جوزف عون چاہتے ہیں نیز عیسائیوں میں ایسی آزاد شخصیات بھی ہیں جنہیں صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا جا سکتا ہے۔
باخبر لبنانی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ سعودی عرب کے لبنانی منظر نامے سے نکل جانے کے تمام تر دعوؤں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ سعودی کبھی بھی اپنے آپ کو لبنانی منظر سے دور نہیں دیکھ سکتے۔