سچ خبریں:سعودی عرب نے کھیل اور تجارت کے ساتھ ساتھ جیوسٹریٹی کے شعبے میں بھی متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ اپنا مقابلہ بڑھایا ہے۔
الخلیج الجدید نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں سعودی عرب نے کھیل اور تجارت کے ساتھ ساتھ جیوسٹریٹی کے شعبے میں بھی متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ اپنا مقابلہ بڑھایا ہے، رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے خلیج فارس کے تجارتی ، ثقافتی اور جیوسٹریٹجک مرکز کے طور پر متحدہ عرب امارات اور قطر کو پیچھے چھوڑنے کی کوششیں تیز کردی ہیں جبکہ حال ہی میں اس نے اپنے چھوٹے پڑوسیوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے نیز مشرق وسطی 2022 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے قطر کے منتخب ہونے کے بعد سعودی عرب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ مشرق وسطی میں کھیلوں کا سب سے اہم مقام بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
واضح رہے کہ سعودی عرب خطے میں بندرگاہوں اور ٹرمینلز کے انتظام میں بھی حصہ لینے کے خواہاں ہے جن پر اب تک متحدہ عرب امارات اور کسی حد تک قطر کا غلبہ رہا ہے،تاہم سعودی عرب نے رواں سال کے شروع میں مشرق وسطی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے اپنی کوششیں شروع کیں جس کے نتیجہ میں فروری میں اعلان کیا کہ وہ 2024 تک ان بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ تجارت معطل کردے گا جو اپنا مرکزی دفتر اس ملک میں قائم نہیں کریں گے۔
یادرہے کہ سعودی عرب کے اس اقدام کو جی سی سی کے تجارتی مرکز کی حیثیت سے متحدہ عرب امارات کے غلبے کو کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو بات تیزی سے واضح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ تیل کے میدان سے ہٹ کر خطے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مختلف منصوبے یقینی طور پر ان کے مابین مزید مسابقت پیدا کردیں گے،یادرہے کہ سعودی عرب کے برعکس متحدہ عرب امارات ورلڈ بینک 2020 کی درجہ بندی کے مطابق ایز آف ڈونگ انڈیکس میں 16 ویں نمبر پر آیا ہے جبکہ ریاض 62 ویں نمبر پر ہے۔
واضح رہے کہ دبئی اپنی لامتناہی تجارتی جگہ کے ساتھ طویل عرصے سے بین الاقوامی کمپنیوں کے ترجیحی خطوں کا صدر مقام رہا ہے اور متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک بینکر سعودی عرب کے اس اقدام کو متحدہ عرب امارات کے لئے واضح چیلنج کے ساتھ ساتھ دبئی کے ساتھ مسابقت کے طور پر بھی دیکھتا ہے،قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب بندرگاہ پر قابو پانے کے معاملے میں بھی کمزور ہے جبکہ دبئی پورٹس 40 سے زائد ممالک میں 82 سمندری ٹرمینلز چلارہا ہے ، جن میں جبوتی ، صومالیہ ، سعودی عرب ، مصر ، ترکی اور قبرص شامل ہیں۔