سچ خبریں: سعودی یورپی تنظیم برائے انسانی حقوق نے گذشتہ ایک دہائی میں زیر حراست خواتین کو پھانسی دینے کا سعودی حکومت کا سیاہ ریکارڈ درج کیا ہے۔
تنظیم کا کہنا تھا کہ آل سعود حکومت نے پچھلے 11 سالوں میں 29 خواتین کو سزائے موت دی ہے اور یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سعودی عرب میں پھانسی دی گئی خواتین کی تعداد ذکر سے زیادہ ہے۔
انسانی حقوق کی سعودی یورپی تنظیم نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں عدلیہ میں آزادی اور سالمیت کا فقدان ہے اور اس کے طریقہ کار اور نتائج ناقابل اعتماد ہیں۔
سعودی حکام نے 2011 میں پانچ ، 2012 میں ایک ، 2013 میں دوسری ، 2014 میں دو اور 2015 میں چار سزائیں سنائی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 میں تین ، 2017 اور 2018 میں چار ، 2019 میں چھ ، 2020 میں دو اور 2021 میں ایک سزا سنائی گئی۔
سرکاری انسانی حقوق کمیشن نے جنوری 2021 میں ایک بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ 2020 کے دوران سزائے موت میں کمی کی جائے گی۔
سعودی نوجوان کے مصطفی درویش کو گزشتہ جون میں پھانسی دینے سے دنیا بھر میں خدشات بھی بڑھ گئے تھے ، سعودی دعووں کے باوجود کہ وہ 2020 میں نابالغوں کی پھانسیوں کو چھوڑ دے گا۔
یورپی سعودی انسانی حقوق کی تنظیم نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 2021 میں پھانسیوں میں اضافہ کیا ہے۔
تنظیم نے کہا کہ درجنوں افراد جن میں بچے خواتین اور ضمیر کے قیدی شامل ہیں سعودی عرب میں ابھی تک انصاف کے فقدان کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔
گذشتہ ہفتے انسانی حقوق کے گروپوں نے سعودی عرب میں سزائے موت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سال ملک میں پھانسی کی تعداد پچھلے سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔