شہید سید حسن نصراللہ کے قتل میں امریکہ کا کردار 

شہید سید حسن نصراللہ کے قتل میں امریکہ کا کردار 

?️

سچ خبریں:اگرچہ امریکہ کی شہید سید حسن نصراللہ کے قتل میں لاجسٹک اور اسلحہ کی فراہمی میں شمولیت پر کوئی شک نہیں ہے، لیکن کچھ اور عناصر بھی ہیں جو واشنگٹن کی اس قتل میں شرکت کے پہلوؤں کو مزید وسیع تر بناتے ہیں۔  

المنار نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق صہیونی دشمن نے حزب اللہ کے سابق سکریٹری جنرل شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کے عمل میں اپنی جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی استعمال کی اور محض چند منٹ میں اپنے F-15 لڑاکا جہازوں کے ذریعے ایک علاقے پر 80 سے زائد بم گرائے، جن میں سے ہر بم کا وزن ایک ٹن تھا۔
 موجودہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اس آپریشن میں استعمال ہونے والے بم ایم کے 84 قسم کے تھے، جو اینٹی بونکر ہیں اور امریکہ میں تیار کیے گئے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حزب اللہ سیکرٹری جنرل کا قتل ایک عام فوجی اور سیکیورٹی آپریشن نہیں تھا بلکہ اسے انجام دینے کے لیے طویل عرصے تک تیاری کی ضرورت تھی۔
یہ آپریشن لبنان پر حملے کے تناظر میں کیا گیا، جس کی وجہ غزہ پٹی میں مزاحمتی گروپوں کی حمایت تھی، متعدد ذرائع نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ صہیونی حکومت نے اس آپریشن کے لاجسٹک اور معلوماتی ڈھانچے کے لیے بین الاقوامی مدد اور دنیا کی خفیہ ایجنسیوں کا استعمال کیا ہوگا، حتیٰ کہ کچھ ذرائع نے کچھ بین الاقوامی فریقوں کی براہ راست یا بالواسطہ شمولیت کا بھی انکشاف کیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم سوال امریکہ کی اس آپریشن کی منصوبہ بندی، عملدرآمد اور لاجسٹک فراہمی میں مداخلت کی حد ہے،سیاسی اور فوجی امور کے ماہرعمر معربونی اس بارے میں زور دیتے ہیں کہ امریکیوں کا کردار، جو کہ محور مزاحمت کے بنیادی دشمن کے طور پر ہیں، کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس معاملے میں امریکیوں اور صہیونیوں کے درمیان اسٹریٹجیک ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔
امریکہ نے شہید سید حسن نصراللہ کے قتل میں اپنی شمولیت کو مزید بڑھاتے ہوئے اسرائیلیوں کو میزائل فراہم کیے، جو اس حملے میں استعمال ہوئے، یہ میزائل ایم کے 84 قسم کے تھے، جن کا وزن ایک ٹن ہونے کے باوجود ہر ایک میں 80 ٹن بارودی مواد کے برابر تباہی کی صلاحیت موجود تھی۔
عمر معربونی نے امریکہ کی اس قتل میں شمولیت کے دو اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے:
1. الیکٹرانک نگرانی اور جاسوسی معلومات کی فراہمی: یہ واضح ہے کہ اس آپریشن سے پہلے جدید جاسوسی کارروائیاں کی گئیں، جس کے ذریعے اہداف کو درست طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔
2. صہیونی حکومت کو اسلحہ اور سازوسامان کی فراہمی: امریکہ کا اس آپریشن میں مرکزی کردار تھا، جس پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔
عدنان علامہ، بین الاقوامی امور کے ماہر، نے امریکہ کو شہید سید حسن نصراللہ کے قتل کا بنیادی شریک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ہی صہیونی حکومت کو وہ لڑاکا جہاز، اسلحہ اور بم فراہم کیے تھے جو اس قتل میں استعمال ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو یقینی طور پر اس قتل کی معلومات تھی، کیونکہ اس میں استعمال ہونے والے بم خاص قسم کے تھے، جن میں کمزور یورینیم بھی شامل تھا تاکہ بم کی گہرائی میں سرایت کرنے کی صلاحیت اور دھماکے کے درجہ حرارت کو بڑھایا جا سکے۔
علامہ نے زور دیا کہ امریکہ نے نہ صرف شہید سید حسن نصراللہ کے قتل میں استعمال ہونے والے سازوسامان کی فراہمی کی، بلکہ اس قتل کی لامحدود سیاسی حمایت بھی کی، جس کی وجہ سے صہیونی حکومت کے سربراہان کو جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات سے بچا لیا گیا۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جرائم مٹ نہیں سکتے، اور امریکہ اور صہیونی حکومت کو آخرکار اپنے اعمال کی سزا ملے گی۔
انہوں نے امریکہ کی براہ راست شمولیت کو 70 فیصد سے زیادہ قرار دیا، جو کہ میدانی عمل، فضائی حمایت یا معلوماتی تعاون کے ذریعے انجام دی گئی۔ انہوں نے اس سلسلے میں کئی اہم نکات بیان کیے:
1. لبنان میں امریکہ کا دنیا کا سب سے بڑا سفارتخانہ؛ جس میں ہیلی کاپٹر اور جہازوں کے لیے خصوصی رن وے شامل ہے، جس کی وجہ سے اس کی پروازیں بیروت ایئرپورٹ کے زیر نگرانی نہیں ہیں۔
2. لبنان کے وزارتی اور سرکاری دفاتر میں امریکی نمائندوں کی آزادانہ آمد و رفت؛ جنہیں لبنانی وزارت خارجہ کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
3. سفارتخانے کا جدید ترین جاسوسی نظام؛ جو بڑی مقدار میں جاسوسی معلومات جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو یقینی طور پر صہیونی حکومت کو فراہم کی جاتی ہیں۔
المنار نے اپنی رپورٹ کے اختتام پر زور دیا کہ امریکہ اور صہیونی حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود، مزاحمتی تحریک مضبوط اور منظم رہے گی اور کوئی بھی اسے شکست نہیں دے سکتا۔
حزب اللہ کے سابق سکریٹری جنرل  شہید سید حسن نصراللہ ایک استثنائی اور لازوال رہنما کے طور پر مزاحمت کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ان کی شہادت بھی ان کی زندگی کی طرح صہیونیوں کے لیے خوف و ہراس کا باعث بنے گی اور صہیونی حکومت کو آخرکار یہ احساس ہوگا کہ اس قتل کے ذریعے انہوں نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا غلط قدم اٹھایا تھا۔

مشہور خبریں۔

بائیڈن کے مشیر سعودی عرب کیا کرنے آئے ہیں؟

?️ 5 اکتوبر 2023سچ خبریں: بائیڈن کے اعلیٰ مشیروں نے خاموشی سے سعودی عرب کا

ورلڈ کپ 2022 میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سخت جنگ

?️ 23 نومبر 2022سچ خبریں:قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کا ایک پہلو فلسطینیوں اور

امریکی F-22 لڑاکا طیارے متحدہ عرب امارات میں تعینات

?️ 13 فروری 2022سچ خبریں: امریکی F-22 لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرن ہفتے سے ابوظہبی کے

سویڈن میں اسلامو فوبیا کی صنعت

?️ 3 جولائی 2023سچ خبریں: سویڈن مغرب میں مسلم کمیونٹی کے خلاف لڑائی کا آئینہ

مغربی کنارے میں صیہونیوں کے ہاتھوں گیارہ فلسطینی شہری گرفتار

?️ 25 فروری 2021سچ خبریں:اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ علاقوں میں اپنی معاندانہ کاروائیاں جاری رکھتے

اسرائیل کی بشاراسد کو قتل کرنے کی دھمکی

?️ 11 نومبر 2024سچ خبریں: عبرانی اخبار اسرائیل ہیوم نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے

75 فلسطینی قیدیوں کا بھوک ہڑتال کرنے کا اعلان

?️ 24 جولائی 2022سچ خبریں:75 فلسطینی قیدیوں نے اپنے دو ساتھی قیدیوں کی حمایت میں

امریکی کسے ووٹ دیں؟ امریکی میگزین کا مشورہ

?️ 28 دسمبر 2023سچ خبریں: امریکہ میں نئے سال میں دو فیصلہ کن انتخابات کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے