سچ خبریں: سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ میں ایک قطری اسٹور کی کاروائی دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے اس مہم کی حمایت کا اعلان کرنے کا باعث بنی اور انہوں نے اپنی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مغرب کا اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کا سنجیدگی سے جواب دیں۔
یورپی ممالک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری رہنے اور سویڈن میں سلوان مومیکا کے ہاتھوں اس جرم کے کئی مرتبہ دہرائے جانے کے بعد "السوق البلدی” نامی ایک بڑے قطری اسٹور نے سویڈن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور اسٹور میں موجود تمام سویڈش مصنوعات اٹھا لیں۔
قطری اسٹورکا ایک قابل تعریف اقدام
اس اسٹور کی تصاویر کی اشاعت، جسے پوری دنیا کے مسلمان لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی، ورچوئل اسپیس میں وسیع عکاسی ہوئی اور "بائیکاٹ سویڈن” نیز "بائیکاٹ آف سویڈش” جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ نیز پورے عالم اسلام بلکہ عالمی سطح پر سویڈش مصنوعات کا بائیکاٹ کا نعرہ لگائے جانے کا باعث بنیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں سویڈن کی بنی ہوئی اشیاء کے بائیکاٹ یہاں تک کہ اسٹاک ہوم کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے حق میں مہم تیز ہو گئی ہے ۔
ہم اسلام کے وقار پر حملہ کرنے والوں کو دندان شکن جواب دیں گے:شامی تجزیہ کار
شام کے تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر حسن مرہیج نے مغرب میں قرآن پاک کی بار بار بے حرمتی کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں تمام مذہاب کی اقدار اور مقدسات کا احترام کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا مسلمانوں اور ان کی مقدسات سے مغرب کی نفرت کی انتہا کے اظہار سے سوا کچھ نہیں ہے جو بھی لوگوں کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اسے بغیر کسی تقریق کے انسانی جذبات کی قدر کرنی چاہیے چاہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلامی مقدسات کی توہین کیسے بند ہوگی؟ ترک صدر کیا کہتے ہیں؟
مرہیج نے مزید واضح کیا کہ اس جرم پر مسلمانوں کا قومی اور عوامی ردعمل اس طرح غیر منصفانہ انداز میں ان کے جذبات کو بھڑکانے کا منطقی اور فطری اظہار ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارا جواب زیادہ منطقی ہونا چاہیے،اس لحاظ سے کہ توہین کے جواب میں توہین کرنا اسلام کی شان کے خلاف ہے کیونکہ اسلام محبت اور رواداری کا مذہب ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف اگر یہ جرائم جاری رہے تو سیاسی جہت میں اسلامی ممالک سے ان ملکوں کے سفیروں کو ملک بدر کرنے یا سفارتی تعلقات منقطع کرنے جیسے موثر اقدامات ضروری ہیں،شام کے اس ممتاز تجزیہ کار نے کہا کہ ان تحریکوں کی حمایت کرنے والے ممالک کے خلاف سفارتئی اور اقتصادی پابندیاں عالم اسلام کی طرف سے کسی بھی ایسے ملک کے لیے واضح اور سخت پیغام ہوں گی جو اسلامی مقدسات کی توہین کی اجازت دیتا ہے،میری رائے میں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ مضبوط اقدامات کیے جانے چاہیے۔
قطر نے درست قدم اٹھایا ہے، عرب ممالک ساتھ دیں:لبنانی تجزیہ کار
لبنان کے سیاسی تجزیہ کار اور میڈیا ایکٹوسٹ ندال عیسی نے مغرب میں حالیہ جرائم پر مسلمانوں کے وسیع غصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربیوں کی جانب سے اتنی بڑی توہین کے مقابلہ میں زیادہ کچھ لوگوں کا ردعمل سرد تھا،اسلام کی اتنی بڑی توہین کے مقابلے میں قطری حکومت کا موقف بہت مناسب ہے، یہ خلیج فارس کا پہلا ملک تھا جس نے سویڈن کے سفیر کو طلب کیا اور اسے باضابطہ طور پر اس اقدام کی مذمت میں ایک خط سونپا اور پھر تمام عرب ممالک سے سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔
اس لبنانی تجزیہ نگار نے مزید کہا کہ قطر نے جو کچھ کیا وہ اس انتہاپسندانہ کاروائی کے جواب میں درست اقدام تھا اور عرب ممالک کو اسی فارمولے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور اسی طرح کے اقدامات کے ساتھ دوحہ کے فیصلے کی حمایت کرنی چاہیے،اسلامی ممالک کو ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنا چاہیے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو بھی اس میں دعوت دینا چاہیے تاکہ اجتماعی طور پر فیصلہ کیا جا سکے جسیے قطر کی حکومت کی طرف سے سویڈش مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے؛ یہ عرب لیگ جیسے علاقائی اداروں کا فرض ہے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تمام عرب ممالک فوری طور پر سویڈن کے سفیروں کو اپنی سرزمین سے نکال دینا چاہیے تاکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جرائم کی قیمت معلوم ہو سکے۔
میڈیا کوریج؛ قطر کا شکریہ، بائیکاوٹ کو آگے بڑھایا جائے
قطر کی اس کاروائی کی رپورٹ میں عرب میڈیا نے لکھا کہ یہ بڑی مارکیٹ، جو محمد بن عبداللہ العطیہ نامی ایک تاجر کی ہے، نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلی اطلاع تک اپنی تمام شاخوں سے سویڈش مصنوعات کو ہٹایا جا رہا ہے،اس قطری اسٹور نے اپنے شائع کردہ بیان میں مقدس آیت کا استعمال کیا ہے "شعائر الٰہی کی تعظیم دلوں کا تقویٰ ہے”، قطری اسٹور کے اس اقدام کو ورچوئل اسپیس اور سوشل میڈیا کے کارکنوں نے سراہا ہے، اس کے بعد مسلمان صارفین نے سویڈش مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے ایک بڑی منظم مہم چلانے کا مطالبہ کیا جہاں 200 سے زیادہ قومی، مقامی اور علاقائی میڈیا نے آج اس پابندی سے متعلق خبروں کو دوبارہ شائع کیا۔ ٹوئٹر سے فیس بک اور انسٹاگرام تک ہر سوشل میڈیا پر ایک جیسی پوسٹس کے تحت صارفین نے قطری اسٹور کے سربراہ اور اس ملک کے حکام کا شکریہ ادا کیا،ان صارفین نے اس پالیسی کو تمام اسلامی ممالک تک توسیع دینے کا مطالبہ کیا، اس خبر کے منظرعام پر آنے کے بعد سے عراق، عمان، لبنان، کویت اور دیگر ممالک کے بہت سے بڑے اسٹور سویڈش اور ڈینش اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم میں شامل ہو چکے ہیں۔
ہم اس وقت تک خاموش نہیں رہیں گے جب تک سویڈن سرکاری طور پر معافی نہیں مانگتا:علاقائی سیاست دان
اردنی پارلیمنٹ کے رکن ینال فریحات نے اسلامی مقدس مقامات کے خلاف مغربی ممالک کے جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی اور اپنے ملک کے احتجاجی اجتماعات میں کہا کہ ہماری قوم کے غصے کا وقت آ گیا ہے، ہمیں ان جرائم کے خلاف اپنی پوری طاقت اور ہر طریقے سے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے،سویڈن آزادی کا دعویدار ہے جبکہ یہ ایک ایسا ملک جس کا آزادی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ جنگ اور تباہی اور استعمار کا گہوارہ، اسلام کے خلاف جرائم اور دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے خلاف نفرت کا میزبان بن چکا ہے، فریحات نے اپنے ملک کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں کہا کہ عرب اور اسلامی اقوام کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ سویڈش اشیاء کا بائیکاٹ کریں اس سے اس ملک کی حکومت کو بھی نقصان پہنچے گا۔
مزید پڑھیں: یورپ آزادی کا گہوارہ ہے یا توہین؟
انہوں نے کہا کہ میں اس ملک کے وزیر اعظم کو سے کہتا ہوں جنہوں نے کہا تھا کہ یہ حرکتیں میرے موقف کی عکاسی نہیں کرتیں! جی نہیں سب سے پہلے آپ کو سرکاری طور پر تمام مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے، اور دوسری بات، آپ کو وعدہ کرنا چاہیے کہ آپ کے ملک میں ایسے جرائم دوبارہ نہیں ہوں گے۔
کون سی آزادی اور کون سا اظہار رائے؟
سائبر اسپیس میں، بلاگرز اور اسلامی شخصیات اس جرم سے مشتعل ہیں اور سب سے بڑھ کر انہیں آزادی اظہار رائے کے احترام کے سویڈن کے دعوے سے مسئلہ ہے، وہ مسلسل تصاویر اور ویڈیوز شائع کرتے ہیں اور سوال اٹھاتے ہیں کہ عوامی جرم کو آزادی اظہار رائے کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ عرب دنیا کے مشہور یوٹیوبر ،عبداللہ الشریف نے ایک فلم ریلیز کر کے مغربی موقف میں اس تضاد کو اچھی طرح ظاہر کیا ہے، ان کے مطابق مغرب صیہونی حکومت کے پرچم کو جلانے کو یہود دشمنی کا ثبوت سمجھتا ہے، ہم جنس پرستی کی مخالفت کو تشدد اور انتہا پسندی کی علامت سمجھتا ہے، لیکن آسمانی اور اسلام کی مقدس کتاب کے جلانے کو آزادی اظہار رائے خیال کرتا ہے!