اسلام آباد:(سچ خبریں) قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پیمرا ترمیمی بل کو الیکٹرانک میڈیا کے اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے عام طور پر سراہا گیا، لیکن بادی النظر میں یہ معلومات کی ترسیل سے متعلق نئی تعریفیں مرتب کرتا ہے لیکن انہیں ایسے ہی قبول کرنا مشکل ہے۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی ایکٹ 2022 وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ایوان میں پیش کیا۔
بل میں ریگولیٹر کے اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ افعال میں بھی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں، مثلاً اتھارٹی میں چیئرپرسن کے علاوہ اراکین کی تعداد 12 سے بڑھا کر 13 کر دی گئی ہے۔
تاہم نشریاتی اداروں اور کارکنوں کے دیرینہ مطالبے کو کچھ حد تک پورا کیا گیا ہے، کیونکہ اتھارٹی میں براڈکاسٹرز اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں سے ایک ایک ووٹ نہ دینے والے اعزازی اراکین بھی شامل ہوں گے۔
پیمرا بل کے دیباچے میں ’اتھارٹی کے لائسنس یافتہ الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہ کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے‘ ترمیم کی گئی ہے۔
ریگولیٹر کی ذمہ داریوں میں صرف ’خبروں‘ کی بجائے ’مستند خبروں‘ کی ترسیل بھی اب اس کے کام میں شامل ہے۔
اس کے ساتھ کسی بھی چینل کی نشریات معطل کرنے کا اختیار صرف چیئرپرسن کے پاس نہیں ہوگا بلکہ مجوزہ ترمیم کے تحت کسی بھی سیٹیلائٹ الیکٹرانک میڈیا کی نشریات روکنے کے اختیارات ’چیئرمین اور پیمرا کے دو ارکان‘ کو سونپے جائیں گے۔
پیمرا قانون میں شامل کی گئی نئی شق میں کہا گیا ہے کہ ’20 اے-لائسنس یافتہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکٹرانک میڈیا ملازمین کی تنخواہیں بروقت ادا کرے، اتھارٹی کا لائسنس دہندہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اس کے ساتھ کام کرنے والے الیکٹرانک میڈیا ملازمین کو 2 ماہ کے اندر اندر تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کردی جائے‘۔
بل کے مطابق ’جھوٹی، گمراہ کن، ہیرا پھیری، تخلیق کردہ یا من گھڑت معلومات کے چیلنجز کا قانونی تعین کرنے والوں کے لیے مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریفوں کو شامل کیا گیا ہے‘۔
بل میں کہا گیا ہے کہ ’مس انفارمیشن کا مطلب تصدیق شدہ طور پر غلط، گمراہ کن، ہیرا پھیری، تخلیق یا من گھڑت معلومات ہے جو کسی دوسرے شخص کے نقطہ نظر کو حاصل کرنے یا اسے مناسب جگہ نہ دینے کی کوشش کیے بغیر کسی بھی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے یا اسے سیاسی، ذاتی یا مالی مفادات یا فائدے کے لیے ہراساں کرنے کے ارادے سے پھیلایا یا شیئر کیا جاتا ہے‘۔
صحافیوں کو تشویش ہے کہ اس سے طاقتور حلقوں کو تبصرے کو روک کر ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا موقع ملے گا، کیونکہ نئے قانون کے تحت یک طرفہ اسٹوریز کو ’مس انفارمیشن ’سمجھا جا سکتا ہے۔
حکومت نے ان اصطلاحات کے لیے نئی تعریفیں بنانے کی بھی کوشش کی ہے، کیونکہ یہ بین الاقوامی سطح پر استعمال ہونے والی اصطلاحات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
دوسری جانب 2018 میں شائع ہونے والے یونیسکو کے رہنما خطوط یہ تعریف پیش کرتے ہیں کہ ’مس انفارمیشن وہ غلط معلومات ہیں جو کسی شخص، سماجی گروپ، تنظیم یا ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے غلط اور جان بوجھ کر بنائی گئی ہوں‘۔
سینٹر فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق ’مس انفارمیشن کسی شخص یا تنظیم کو بدنام کرنے کے لیے جان بوجھ کر غلط یا جھوٹی معلومات پھیلانا ہے۔‘
پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ حکام معلومات کی آزادی کے حوالے سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ کریں اور ایسے قوانین کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے کا مطالبہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کے لیے ایک مکمل سروس اسٹرکچر ہو نہ کہ صرف تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔
افضل بٹ نے یہ بھی کہا کہ پیمرا میں براڈکاسٹرز اور پی ایف یو جے دونوں کو ووٹنگ کے حقوق ہونے چاہئیں تاکہ کارکنوں اور سرمایہ کاروں کے مفادات کا تحفظ ہو۔
پیمرا ترمیمی ایکٹ 2022 پر غور کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اجلاس آج طلب کر لیا گیا ہے۔