اسلام آباد:(سچ خبریں) قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد میں دراڑیں اس وقت نظر آئیں جب وفاقی بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے سندھ حکومت کوسیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے وعدے کے مطابق فنڈز فراہم نہ کرنے اور ٹیکس میں صوبے کے حصے کی رقم سے انکار کرنے پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پیپلز پارٹی کے قانون سازوں نے اپنی تقاریر میں مسلم لیگ (ن) پر غریبوں کو ریلیف دینے، قیمتوں میں کمی اور توانائی کے بحران کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کا الزام لگایا اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے ابہام پر تشویش کا اظہار کیا۔
بجٹ میں تمام خرابیوں اور نقائص کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کو ٹھہراتے ہوئے پیپلز پارٹی کے قانون سازوں نے دعویٰ کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا کریڈٹ سابق صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے، جن کے اصرار پر حکومت اضافہ کرنے پر راضی ہوئی۔
اسی طرح پیپلزپارٹی کے متعدد اراکین قومی اسمبلی نے اپنی پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی ’کامیاب‘ خارجہ پالیسی اور سیلاب زدہ علاقوں کے لیے امداد حاصل کرنے پر تعریف کی اور عالمی فورمز پر ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو مؤثر طریقے سے اٹھایا۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کسی نے بھی پیپلزپارٹی کے ارکان کو براہ راست جواب نہیں دیا بلکہ وہ اپنی تقاریر میں موجودہ معاشی حالات میں ’بہترین ممکنہ بجٹ‘ پیش کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی تعریفیں کرتے رہے۔
سندھ کے سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے فنڈز جاری نہ کرنے کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے اراکین کی شکایات کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے مختصراً کہا کہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی جلد بحالی کے لیے کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرکز سندھ حکومت کے ساتھ مل کر گزشتہ سال شدید سیلاب اور بارشوں سے متاثر ہونے والے لوگوں کی امداد اور بحالی سے متعلق معاملات پر مزید غور کرے گا۔
اس سے پہلے دن میں پیپلز پارٹی کے ایک رکن نے بھی بجٹ کو ’غیر حقیقی‘ قرار دیتے ہوئے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا تھا تاہم وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے زبردستی بجٹ کا دفاع کیا اور اس تاثر کی تردید کی کہ انہوں نے اسے متوقع بجٹ کو مدنظر رکھ کر پیش کیا ہے۔
تاہم سب سے سخت تقریر نصیبہ چنہ کی جانب سے کی گئی جو خواتین کے لیے مخصوص نشست پر منتخب ہوئی تھیں، جن کا کہنا تھا کہ حکومت بجٹ میں غریبوں کو کوئی ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔
تقریباً 17 قانون سازوں نے وفاقی بجٹ پر بے سود بحث میں حصہ لیا جسے وزیر خزانہ نے 9 جون کو اپوزیشن سے خالی قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا تھا۔
خاتون رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ بجٹ میں غریبوں کے لیے کیا ہے؟ مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ان (غریبوں) کے لیے کچھ نہیں سوچا گیا، حکومت نے اشرافیہ کے لیے بجٹ بنایا ہے، انہوں نے کہا کہ غریب مہنگائی کی زد میں ہیں اور حکومت انہیں کوئی ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔
نصیبہ چنا نے افسوس کا اظہار کیا کہ قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باوجود نہ تو عوام کو بجلی میسر ہے اور نہ ہی گیس، انہوں نے چکن، دالیں، سبزیاں، انڈے، دودھ، کوکنگ آئل، آٹا اور چاول جیسی اشیا کی قیمتوں میں کمی کے لیے کوئی قدم نہ اٹھانے پر بھی حکومت پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو موجودہ حکومت سے بہت امیدیں تھیں لیکن اب وہ رو رہے ہیں، عوام سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت عمران خان کی سابقہ حکومت سے بدتر ہے۔
قمبر شہدادکوٹ سے پیپلز پارٹی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی عامر مگسی نے کہا کہ حکومت نے 50 ہزار ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے تھے لیکن اس کے لیے کوئی طریقہ کار فراہم نہیں کیا گیا اور وہ نہیں جانتے کہ یہ ٹیوب ویل کس صوبے میں ہیں۔
نوشہرو فیروز سے پیپلزپارٹی کے رکن ابرار شاہ نے شکایت کی کہ سندھ کو قابل تقسیم حصے سے اس کا حصہ نہیں دیا جا رہا، انہوں نے الزام لگایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو بقایا جات بھی ادا نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کو 284 ارب روپے جب کہ پنجاب کو 500 ارب روپے سے زائد حصہ ملے گا جو ناانصافی ہے۔
اجلاس کے آغاز میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملک کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے اسمبلی میں اپنی حالیہ تقریر کے دوران ان کے خلاف ’نامناسب ریمارکس‘ پاس کرنے پر دلی معذرت کی۔