لاہور:(سچ خبریں) پنجاب اسمبلی نے وفاقی حکومت کی جانب سے 176 ارب روپے کے فنڈز روکنے اور صوبے کو گندم درآمد کرنے کی اجازت نہ دینے پر اس کے خلاف قرارداد منظور کرلی۔
پنجاب اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آرمی چیف کے خلاف مبینہ سوشل میڈیا پوسٹ پر گرفتار کیے جانے کی بھی مذمت کی۔ اسی دوران پنجاب اسمبلی نے بظاہر پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب احساس پروگرام بل سمیت 5 بلوں کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر ہی منظور کرلیا۔
گزشتہ 4 ماہ سے جاری رہنے والے 41ویں اجلاس کے دوران 18ویں سیشن میں وزیر خوراک حسنین بہادر دریشک نے قرارداد پیش کی جس میں الزام لگایا گیا کہ وفاقی حکومت نے پنجاب کے کم از کم 176 ارب روپے کے فنڈز روک رکھے ہیں۔
قرارداد میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ وفاقی حکومت نہ تو پنجاب کو اپنے اسٹاک سے گندم فراہم کر رہی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت کو خود اناج درآمد کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ صوبائی وزیر نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکام نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد اور بحالی کے لیے بھی پنجاب کو کوئی امداد کی پیشکش نہیں کی۔
وزیر مواصلات علی افضل ساہی نے سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری کے خلاف بھی ایک اور قرارداد پیش کی، قرارداد میں الزام لگایا گیا کہ پی ٹی آئی سینیٹر کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس میں کہا گیا کہ ایوان مبینہ طور پر آرمی چیف کے خلاف کی گئی ٹوئٹ پر امپورٹڈ حکومت کے کہنے پر کی گئی ان کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہے۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی خلیل طاہر سندھو کی جانب سے اعظم سواتی کے ٹوئٹ کو آئین کے منافی قرار دینے کے باوجود ایوان نے قرارداد منظور کرلی۔ ایوان نے پنجاب احساس پروگرام بل 2022 سمیت 5 بل بھی منظور کر لیے۔
اسپیکر سبطین خان نے رسمی طریقہ کار کے بغیر اسی روز بل کی منظوری کے لیے رولز آف پروسیجر کے رولز 93، 94، 95 اور 234 کو معطل کردیا جس پر طاہر خلیل سندھو نے چیئر کے ایکٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ قوانین کو صرف ہنگامی صورتوں میں معطل کیا جاسکتا ہے۔
ایوان کی جانب سے منظور کیے گئے پنجاب لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021، پنجاب پیشہ ورانہ تحفظ اور صحت (ترمیمی) بل 2020، پنجاب سیڈ کارپوریشن (ترمیمی) بل 2022، پنجاب فیکٹریز (ترمیمی) بل 2022، اور پنجاب جنگلات (ترمیمی) بل 2022 بھی شامل ہیں۔
لوکل گورنمنٹ قانون میں ترمیم کے ذریعے شہری اور دیہی دونوں یونین کونسلوں کی آبادی کا حجم 16 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کردیا گیا، ترمیم میں کہا گیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ سروس کے ملازمین ایکٹ کے مقصد کے لیے صوبے میں کہیں بھی خدمات انجام دینے کے ذمہ دار ہوں گے، جب کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کنٹریکٹ کی بنیاد پر تعینات ہونے والے ملازمین اپنے کنٹریکٹ کی مدت کی تکمیل پر ریگولر ہوجائیں گے۔