🗓️
اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان نے امریکا سے دیگر ممالک میں موجود افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری کے بارے میں پالیسی پر وضاحت طلب کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کے مسئلے کو حل کرے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا کہ امریکا نے افغانوں کی آبادکاری کا عمل معطل کر دیا، لہٰذا ہم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس نکتے پر مزید وضاحت کا انتظار کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، پاکستان نے افغانستان میں بچ جانے والے امریکی فوجی سازوسامان کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے کی کھل کر حمایت کرنے سے گریز کیا ہے، تاہم عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے اور متنبہ کیا کہ پاکستان میں دہشت گرد لاوارث ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
شفقت علی خان نے کہا کہ عالمی برادری کو اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد کرنی چاہیے۔
پاکستان طویل عرصے سے ان خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے کہ 2021 کے انخلا کے دوران امریکی افواج کی جانب سے چھوڑے گئے ہتھیار اس کی سرزمین پر تشدد کو ہوا دے رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، تاہم اسلام آباد کی جانب سے ابتدائی انتباہات کو واشنگٹن میں بہت کم پذیرائی ملی۔
شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے چھوڑے گئے ہتھیاروں کا سوال ہمارے لیے ایک خاص وجہ سے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کہ ان ہتھیاروں کو دہشت گرد پاکستان کے اندر حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کا آغاز کرنے کے فورا بعد ہی اس معاملے پر بحث کو دوبارہ شروع کیا تھا اور آتشیں اسلحے، مواصلاتی آلات اور بکتر بند گاڑیوں سمیت ایک اندازے کے مطابق 7 ارب ڈالر مالیت کے اثاثوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکی سامان کی بازیابی اہم چیلنج ہے، فوجی سازوسامان کا زیادہ تر حصہ ان کے خاتمے سے پہلے افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کو منتقل کر دیا گیا تھا، جس سے طالبان کو ان ذخیروں پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا، 7 ارب ڈالر مالیت کا یہ اسلحہ ان ہتھیاروں کے علاوہ ہے جو افغان فورسز کو دیے گئے تھے، ان ہتھیاروں کو دوبارہ حاصل کرنے یا غیر فعال کرنے کی لاجسٹک اور سفارتی پیچیدگیاں اہم رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔
طالبان نے امریکی مطالبات کو مسترد کر دیا ہے اور اس کے بجائے داعش سے نمٹنے کے لیے مزید جدید ہتھیاروں کا مطالبہ کیا ہے، جس سے علاقائی سلامتی کا منظر نامہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
اگرچہ پاکستان ان ہتھیاروں پر تشویش کا اظہار کرتا ہے لیکن وہ صدر ٹرمپ کے موقف سے ہم آہنگ ہونے کے بارے میں محتاط رہتا ہے، اور خدشہ ہے کہ یہ مسئلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں نے قیاس آرائی کی ہے کہ واشنگٹن ہارڈ ویئر کی بازیابی کے لیے فوجی آپشنز پر بھی غور کرسکتا ہے، ایک امکان جو خطے کو مزید غیر مستحکم کرسکتا ہے۔
چند روز قبل کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے طالبان کے قبضے میں موجود فوجی اثاثوں کی بازیابی کے لیے حکمت عملی پر زور دیا تھا۔
شفقت علی خان نے کہا کہ افغانستان اور امریکا کے درمیان جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ دو خودمختار ممالک کے درمیان کا معاملہ ہے، انہوں نے بڑھتے ہوئے سلامتی کے خطرے کے عالمی حل پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے غیر جانبدار رہنے کے ارادے کا اشارہ دیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل تیسرے ممالک میں افغان مہاجرین کی بازآبادکاری کے حوالے سے امریکا سے اپنی پالیسی کی وضاحت چاہتا ہے، امریکا نے اس عمل کو معطل کردیا لہٰذا ہم اس نکتے پر مزید وضاحت کے منتظر ہیں۔
اقتدار میں واپسی پر صدر ٹرمپ کے پہلے اقدامات میں سے ایک افغانوں کی دوبارہ آبادکاری کے پروگرام کو روکنا تھا، جنہوں نے 2021 کے انخلا سے قبل امریکی افواج کے ساتھ کام کیا تھا یا انسانی حقوق کی سرگرمی میں شامل تھے۔
اس معطلی کی وجہ سے اس وقت پاکستان میں موجود تقریباً 25 ہزار افغانوں کی پروسیسنگ اور منتقلی میں خلل پڑا ہے، جن میں سے بہت سے اپنی ماضی کی وابستگیوں کی وجہ سے طالبان حکومت کے تحت ظلم و ستم کے خطرے سے دوچار ہیں۔
گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے ان افغانوں کو ملک بدر کرنے کے امکان کا اشارہ دیا تھا جو اب امریکا میں آباد کاری کے اہل نہیں ہیں۔
پاکستان کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے شفقت علی خان نے کہا کہ اگر کوئی ملک انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں اور اگر ان میں سے کسی کے پاس درست ویزا یا رہائشی حیثیت نہیں ہے تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا، ایسے معاملات میں، غیر دستاویزی افراد کو چلانے والی ہماری پالیسیاں ہمارے لائحہ عمل کا تعین کریں گی، تاہم اس وقت میرے پاس کوئی خاص تعداد نہیں ہے۔
نومبر 2023 میں پاکستان نے غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا، اس کے بعد سے اب تک 8 لاکھ 15ہزار سے زائد افراد کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔
ایف 16 کی نگرانی
ترجمان نے ایف 16 لڑاکا طیاروں کے بیڑے کے لیے امریکی نگرانی کے پروگرام کو جاری رکھنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے دو طرفہ دفاعی تعاون کا ’باقاعدہ فیچر‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایف 16 نگرانی پروگرام ’اینڈ یوزر ایگریمنٹ‘ کے تحت پاکستان اور امریکا کے درمیان دفاعی تعاون کا باقاعدہ حصہ ہے، اور پاکستان اس کے تسلسل کا خیرمقدم کرتا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے اس پروگرام کے لیے 39 کروڑ 70 لاکھ ڈالر جاری کیے ہیں جو پاکستان کی جانب سے امریکی ساختہ ایف 16 طیاروں کے استعمال کی نگرانی کرتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انہیں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ بھارت کے خلاف۔
یہ اقدام پہلے سے منجمد 5 اب 30 کروڑ ڈالر کی غیر ملکی امداد کے وسیع تر اجرا کا حصہ ہے، جو بنیادی طور پر سیکیورٹی اور انسداد منشیات کے پروگراموں کے لیے مختص کی گئی ہے، یہ فنڈز ٹیکنیکل سیکیورٹی ٹیم کی مدد کریں گے جو 2019 سے پاکستان میں تعینات امریکی کنٹریکٹرز کا ایک گروپ ہے، جو اختتامی استعمال کی نگرانی کے معاہدوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گا۔
پاکستان کی فضائیہ، خاص طور پر اس کے نئے ایف-16 سی/ڈی بلاک-52 ماڈلز کو بنیادی طور پر انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے لڑاکا طیارے تعینات کرنے ہوں گے، نگرانی کا طریقہ کار 2019 سے موجود ہے، جب واشنگٹن نے ایف 16 بیڑے کے لیے 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے امدادی پیکیج کی منظوری دی تھی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے پاک-امریکا تعلقات کی وسیع تر اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہیں ’مضبوط‘ قرار دیا جس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، انہوں نے امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ ان اہم تعلقات کو جاری رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریق پہلے ہی سفارتی ذرائع سے رابطے میں ہیں، پاکستان تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے، ترجمان نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اہم ترجیح ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ اپنے روابط کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان بات چیت جاری ہے، تاہم ترجمان نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خلاف خبردار کیا کہ کچھ ریپبلکن کانگریس ارکان نے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مداخلت کریں۔
ان کے خط کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے پاکستان کے جمہوری فریم ورک پر خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جمہوری ملک ہے، کانگریس کے تقریباً 3 ارکان نے مارکو روبیو کو خط لکھا ہے، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بین الریاستی تعلقات کے بنیادی عناصر میں سے ایک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت ہے۔
ترجمان نے تصدیق کی کہ پاکستان نے امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم 8 شہریوں کی واپسی قبول کر لی ہے، جو اس معاملے پر دونوں ممالک کے درمیان جاری بات چیت کے تحت پہلے گروپ کے طور پر واپس آگئے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کی اس پالیسی پر زور دیا کہ وہ اپنے شہریوں کی قومیت کی تصدیق کے بعد انہیں واپس لے گا، مثال کے طور پر کوئی بھی پاکستانی جو غیر قانونی طور پر مقیم ہے، اور اس کی قومیت کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ہم اسے واپس لے لیتے ہیں اور اس پر کوئی ابہام نہیں ہے۔
ترجمان نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک وسیع تر وطن واپسی کے عمل کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔
مشہور خبریں۔
مغربی کنارے میں ایک فلسطینی نوجوان کی شہادت
🗓️ 15 ستمبر 2022سچ خبریں:فلسطینی طبی ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ صہیونی فوجیوں کی
ستمبر
پاکستانی پارلیمنٹ کے اسپیکرنے ایران اور چین کے ساتھ پارلیمانی سفارتکاری کی حمایت
🗓️ 14 اکتوبر 2021سچ خبریں: اسد قیصرایک نیوز رپورٹر جنہوں نے اسلامی مشاورتی اسمبلی میں
اکتوبر
مشیر خزانہ نے پیٹرول مزید مہنگا ہونے کا عندیہ دے دیا
🗓️ 14 نومبر 2021کراچی(سچ خبریں) مشیر خزانہ شوکت ترین نے پیٹرول مزید مہنگا ہونے کا
نومبر
صہیونیوں کی ایک بڑی سکیورٹی ناکامی، اس بار جیل میں
🗓️ 8 ستمبر 2021سچ خبریں:صہیونیوں نے یہودی نئے سال کا آغاز ایسے وقت میں کیا
ستمبر
چینی صدر نے میکرون کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی
🗓️ 25 اپریل 2022سچ خبریں: چینی صدر شی جن پنگ نے پیر کو اپنے فرانسیسی
اپریل
اعتماد کا ووٹ آئینی تقاضا ہے، وزیر اعلی پنجاب کو لینا پڑے گا، گورنر پنجاب
🗓️ 6 جنوری 2023لاہور: (سچ خبریں) گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمٰن سے سابق صوبائی وزرا
جنوری
پاکستان ریلوے کو بجلی چوری سے سالانہ 2 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے
🗓️ 29 دسمبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر ریلوے اعظم خان سواتی نے سینیٹ کی کمیٹی
دسمبر
امریکہ چینی خلائی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ
🗓️ 27 جنوری 2024سچ خبریں:چینی وزارت خارجہ نے اپنے تازہ بیان میں امریکہ کو بین
جنوری