اسلام آباد: (سچ خبریں) ملک بھر میں مون سون سیزن کے دوران شدید بارشوں سے تباہی مچادی جس کے پیشِ نظر سول انتظامیہ کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے دستے بھی سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بچاؤ اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
مسلسل بارشوں نے دیہی علاقوں اور شہروں میں انفراسٹرکچر کو بھی تباہ کر دیا ہے، رواں ماہ کے شروع میں وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔
اس حوالے سے ایک بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ‘ موسمیاتی تبدیلی ہمارے دور کی ایک ‘ناقابل تردید حقیقت’ ہے اور اس کے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیلابوں اور طوفانی بارشوں کو اس زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے’ ساتھ ہی وعدہ کیا کہ حکومت اپنے ترقیاتی اہداف کو موسمیاتی تبدیلی کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کر رہی ہے۔
وزیرِ اعظم نے ملک بھر میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصان کے تعین کے لیے وفاقی وزرا کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم نے ملک بھر میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقصان کے تعین کے لیے وفاقی وزرا کی کمیٹی تشکیل دی ہے اور متاثرہ مکانوں کے معاوضے کو بڑھانے کی ہدایت کی ہے۔
کمیٹی آئندہ 4 روز کے اندر تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کرے گی جس کے بعد 4 اگست کو کمیٹی کی سفارشوں کی روشنی میں قلیل مدتی، وسط اور طویل مدتی جامع پلان تشکیل دیا جائے گا۔
اس کے ساتھ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ متاثرہ اور زخمیوں کی امداد کو 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کیا جائے، کچے اور پکے مکانات کی علیحدہ امداد کو ختم کر کے تمام متاثرہ مکانات کے لیے ایک جیسی امداد فراہم کی جائے اور جزوی طور پر متاثرہ مکانات کی امداد 25 ہزار سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے اور مکمل طور پر متاثرہ گھروں کے لیے 50 ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے معاوضہ کیا جائے۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ قومی و صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز، ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی بجائے ڈزاسٹر رسک مینجمنٹ کی حکمتِ عملی پر عملدرآمد یقینی بنائیں اور متعلقہ وزارتیں اور ادارے بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں سے رابطہ قائم کر کے مالی معاونت کے حصول کے لیے کوششیں تیز کریں۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں حکومت پنجاب پر زور دیا کہ جنوبی پنجاب کے تباہ شدہ علاقوں اور ضلع میانوالی کے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو فوری طور پر سیلاب کی امداد فراہم کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے خیبرپختونخوا حکومت سے بھی کہا ہے کہ وہ بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو فوری طور پر سیلاب کی امداد فراہم کرے۔
صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق یکم جون سے اب تک بلوچستان میں موسلا دھار بارشوں میں 111 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اتھارٹی نے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ اس کے علاوہ 6 ہزار سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا جن میں سے 3 ہزار مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
اس کے علاوہ کوئٹہ کے ہنہ اڑک میں دریاؤں اور نہروں میں طغیانی کے بعد 40 افراد کو بچا لیا گیا البتہ کان مہترزئی کے علاقے میں تین افراد ڈوب کر جاں بحق ہوگئے اور متعدد مکانات بہہ گئے۔
دوسری جانب ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقیلی نے کہا کہ رواں برس مون سون کی بارشوں نے 30 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جس کے سبب صوبے میں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بارشوں کے نتیجے میں 50 ہزار کے قریب افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں زخضمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے اور تقریباً 2 لاکھ ایکڑ اراضی بھی متاثر ہوئی ہے۔
عبدالعزیز عقیلی نے مزید کہا کہ تمام متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
ادھر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ آرمی ایوی ایشن کے دو ہیلی کاپٹر کراچی سے اوتھل اور لسبیلہ کے علاقوں میں روانہ ہوئے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹرز نے گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بھی ایسی ہی کوششیں کی تھیں لیکن ’خراب موسمی حالات‘ کی وجہ سے پرواز نہیں کر سکے تھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر اب پھنسے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کریں گے اور ضروری امدادی سامان بھی منتقل کریں گے۔
مزید برآں گوادر میں جنرل آفیسر کمانڈنگ نے بچاؤ اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے اوتھل کے علاقے کا دورہ کیا اور آج خضدار میں سینئر مقامی کمانڈر خضدار اور گرد و نواح کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اوتھل، جھل مگسی میں گراؤنڈ ریسکیو اور ریلیف ٹیمیں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور مقامی رہائشیوں کو خوراک اور پانی فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
فوج کے میڈیا ونگ نے کہا کہ ‘ڈاکٹرز اور طبی عملہ متاثرہ لوگوں کو طبی امداد فراہم کر رہے ہیں جبکہ کوسٹل ہائی وے کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ تباہ شدہ مواصلاتی ڈھانچے کی مرمت اور سہولیات کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں، تربت میں حفاظتی بند ٹوٹنے کے بعد اس کی مرمت کر دی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ کراچی میں پانی نکالنے کی کوششوں کے علاوہ جامشورو اور گھارو کے علاقوں میں فوج کے دستے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
دریں اثنا وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے کے بارشوں سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ علاقہ قرار دے دیا۔
وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ رواں سال صوبے میں بے مثال بارشیں ہوئیں، مون سون کے تین اسپیلز کے دوران 93 افراد ہلاک جبکہ 2 ہزار 807 مکانات اور 388 کلومیٹر سڑکیں مکمل تباہ ہوگئیں۔
ایک بیان کے مطابق انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ مون سون سیزن کے دوران سندھ میں ‘معمول کے مقابلے میں 369 فیصد زیادہ بارش ہوئیں’۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ‘سنگین صورتحال میں انسانی زندگیوں، انفراسٹرکچر، فصلوں اور مکانات کے نقصانات کی تلافی کے لیے وفاقی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی، حیدرآباد، بدین، سکھر، ٹھٹھہ، سجاول اور دادو جیسے شہروں میں مختلف گلیوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
وزیراعلیٰ نے وزیراعظم کو بتایا کہ تقریباً 15 ہزار 547 مکانات کو بھی جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ 89 ہزار 213 ایکڑ پر کھڑی فصلیں زیرآب یا بہہ گئی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پی ڈی ایم اے صوبے میں امدادی کاموں میں مدد کر رہی ہے، تاہم بلوچستان میں آئندہ دنوں میں مزید بارشیں متوقع ہیں جس سے حب ڈیم پر دباؤ بڑھے گا۔
انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ بارشوں سے جان بحق ہونے والوں کے خاندانوں کو معاوضہ دینے میں صوبائی حکومت کی مدد کریں اور آفت زدہ علاقوں میں زرعی قرضوں کی وصولی ایک سال کے لیے مؤخر کردیں۔
بیان میں آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ فوجی دستے ڈیرہ غازی خان میں سیلاب کے باعث امدادی سرگرمیوں میں سول انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔
پاک فوج نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ مقامی لوگوں کو طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے فوج نے دو میڈیکل کیمپ قائم کیے ہیں۔
علاوہ ازیں ڈیرہ غازی خان میں منگل کی رات دیر گئے پہاڑوں سے آنے والے سیلاب کے بہاؤ نے ایک حفاظتی بند کو توڑا جس سے 6 دیہاتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔