اسلام آباد:(سچ خبریں) اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے آبزرویشن دی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ملنے والی مبینہ ممنوعہ فنڈنگ سے تعلق ثابت کرنے میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) ناکام رہی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فڈنگ کیس میں عمران خان کی ضمانت منسوخی کی درخواست خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے مطمئن نہیں کر سکی کہ عمران خان کی ضمانت منسوخ کیوں کی جائے؟
قبل ازیں ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو ضمانت قبل از گرفتاری دی تھی، ایف آئی اے کے وکیل نے دلائل دیے کہا کہ انکوائری کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ (کیمین آئی لینڈ میں رجسٹرڈ) ووٹون کرکٹ لمیٹڈ کے مالک عارف مسعود نقوی نے ناجائز رقم (21 لاکھ 20 ہزار ڈالر) ایک یو بی ایل اکاؤنٹ میں منتقل کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں قائم ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کو دبئی فنانشل سروسز اتھارٹی نے دبئی انٹرنیشنل فنانشل سینٹر میں غیر قانونی سرگرمیاں انجام دینے اور سرمایہ کاروں کے پیسے کا غلط استعمال کرنے پر جرمانہ عائد کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عارف نقوی کو برطانیہ اور امریکا میں بھی سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کے مقدمے کا سامنا ہے لیکن پی ٹی آئی نے عارف نقوی کا ایک حلف نامہ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ ووٹون کرکٹ لمیٹڈ کے اکاؤنٹس میں جمع ہونے والی تمام رقوم پاکستان میں تحریک انصاف کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئیں۔
ایف آئی اے کے وکیل نے دلیل دی کہ مذکورہ حلف نامہ جھوٹا اور جعلی پایا گیا جبکہ اِس یو بی ایل اکاؤنٹ کے دستخط کنندگان اور استفادہ کنندگان میں عمران خان سمیت دیگر 9 افراد شامل ہیں، جب پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں یہ رقم کی منتقلی کی گئی تو 12 ایس ٹی آرز (مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹس) کی اطلاع یو بی ایل کو متعلقہ حکام کو دینی چاہیے تھی لیکن انہوں نے اپنا فرض ادا نہیں کیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ یو بی ایل نے نہ صرف اس مشکوک/غیر قانونی لین دین میں سہولت فراہم کی بلکہ پی ٹی آئی کے اکاونٹ کو نیا پاکستان اکاونٹ میں تبدیل کرنے کی بھی اجازت دی۔
ایف آئی اے کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ٹرائل کورٹ نے دلائل سنے بغیر عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی منظوری دے دی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ایف آئی آر نے صرف 2 پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے، ایک یہ کہ عارف نقوی نے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں غیر ملکی کرنسی منتقل ہونے کے بارے میں الیکشن کمیشن کو ایک حلف نامہ دیا ہے لیکن مذکورہ حلف نامہ جھوٹا/جعلی ثابت ہوا کیونکہ ووٹون کرکٹ لمیٹڈ کی جانب سے پاکستان میں موجود 2 مختلف اکاؤنٹس میں مئی 2013 کے دوران مزید 2 ٹرانزیکشنز کی گئیں۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس کا عمران خان کے کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایف آئی اے اس بات کی تحقیقات کر سکتی ہے کہ عارف نقوی کی جانب سے بھیجی گئی رقم ناجائز ہے اور ان کا حلف نامہ جھوٹا تھا لیکن ان دونوں پہلوؤں کی آج تک جانچ نہیں کی گئی۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ریکارڈ میں نمایاں کیا گیا دوسرا پہلو بینک کے عہدیداروں کے خلاف الزام ہے جنہوں نے مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں بھاری رقم موصول ہونے کے باوجود متعلقہ حکام کو اطلاع نہیں دی جوکہ اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 کے تحت اسٹیٹ بینک کا مینڈیٹ ہے لیکن اس کے جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
تحریری فیصلے کے مطابق ایک الزام پی ٹی آئی اکاؤنٹ کو نیا پاکستان اکاؤنٹ میں تبدیل کرنے کا ہے جو کوئی جرم نہیں ہے۔
بنچ نے فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947 کا حوالہ دیتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ ایف آئی آر کے اندراج سے قبل فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947 کے سیکشن 19 کی پابندی کرنے میں ناکام رہی جس کے مطابق وفاقی حکومت یا اسٹیٹ بینک کی جانب سے صرف مجاز شخص اس بات کی نمائندگی کرسکتا ہے کہ اس ایکٹ کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
بینچ نے اسٹیٹ بینک حکام کے طرز عمل پر حیرت کا اظہار کیا جنہوں نے ماسٹر ریگولیٹر ہونے کے ناطے ابھی تک ان بینک ٹرانزیکشنز کے حوالے سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی، نہ ہی کسی بینکنگ ٹرانزیکشن کو غیر قانونی قرار دیا اور نہ ہی تفتیشی افسر نے اسٹیٹ بینک کے کسی عہدیدار کا بیان ریکارڈ کرایا جس سے یہ ظاہر کیا جا سکے کہ بینک کے کسی بھی قواعد، ضوابط یا سرکلر کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
استغاثہ کی جانب سے عمران خان کے انکوائری میں شامل نہ ہونے کے دعوے کے ردعمل میں عدالت نے مشاہدہ کیا کہ یہ ضمانت منسوخی کی وجہ نہیں ہو سکتی۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سےعمران خان کی ضمانت منسوخی کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔