اسلام آباد: (سچ خبریں) اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا ہے کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے، اگر قدغن لگا دی جائے گی کہ صرف وہی قانون سازی ہوگی جو سپریم کورٹ کہے گی تو پھر پارلیمنٹ کی آئینی بالادستی تو ختم ہوجائے گی، پھر انتخابات کا مذاق ختم کرنا چاہیے۔
وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا آئین سازی بھی انہیں (سپریم کورٹ) کو کرنی چاہیے، یہ کہاں کا اصول ہے کہ قانون بھی وہ بنائیں اور اس پر فیصلے بھی وہی کریں؟ اس صورت میں پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی جانب سے آئینی اداروں کی حدود میں مداخلت کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے کہ انتخابات پُر امن اور شفاف ماحول میں ہوسکیں، ایسے ماحول میں انتخابات ہو بھی جائیں تو کوئی ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔
راجا پرویز اشرف کا کہنا تھاکہ پھر انتخابات کا مذاق ختم کرنا چاہیے اور آئین سازی بھی انہیں (سپریم کورٹ) کو کرنی چاہیے، یہ کہاں کا اصول ہے کہ قانون بھی وہ بنائیں اور اس پر فیصلے بھی وہی کریں؟ اس صورت میں پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی جانب سے آئینی اداروں کی حدود میں مداخلت کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کرسکتی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو قانون سازی سے روکنے والی سپریم کورٹ نے فوجی آمر پرویز مشرف کو قانون میں ترمیم کا حق دے دیا تھا، ریاست کے آئینی اداروں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ’میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور کون سے عوامل اس کے پیچھے کار فرما ہیں لیکن سپریم کورٹ کے ججز پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غور کریں کہ کہیں ان کے طرزِ عمل کی وجہ سے ملکی مفاد کو تو نقصان نہیں پہنچ رہا، کہیں ہم اپنی پارلیمان کو خود ہی بے وقت تو نہیں کر رہے جس کے بہت خطرناک اثرات ہو سکتے ہیں‘۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے جہاں سے آئین نے جنم لیا اور آئین پاکستان کے مطابق اقتدار کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا، کسی اور ادارے کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب وکلا تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے معاملے کو سننے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے تو اس میں کیا قباحت تھی کہ 3 یا 7 کی بجائے 17 ججز اسے سن لیتے، اگر اتنی سے بات سے ابہام دور ہوسکتا ہے، ملک میں پیدا ہیجان کی کیفیت ختم ہوسکتی ہے تو فل کورٹ کیوں نہیں بنایا گیا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے جس رویے پر وہ شکوہ کررہے ہیں، کیا پارلیمان بھی جواباً وہی رویہ اپنائے ہوئے نہیں ہے؟ جواب میں راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ’اگر کسی پر حملہ کیا جائے گا تو وہ جواب تو دے گا، سپریم کورٹ کے اقدامات پر پارلیمان کو جواب الجواب نہیں دینا چاہیے لیکن اگر عدلیہ کی جانب سے متنازع اقدامات سامنے آتے ہیں تو ایوان سے اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جھگڑا کسی کے مفاد میں نہیں کیوں کہ اداروں کے درمیان بداعتمادی، بدانتظامی کو جنم دیتی ہے اور ریاستی اداروں کے درمیان باہمی احترام کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے راجا پرویز اشرف نے کہا کہ قوم ابھی تک اس بات پہ ابہام کا شکار ہے کہ فیصلہ 4 کے مقابلے 3 ججز کا ہے یا دو، تین کا، امید ہے کہ چیف جسٹس اس بحرانی صورتِ حال کو سلجھائیں گے، چیف جسٹس پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ اور شدت کے ماحول میں کمی لائیں۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ سیاست میں تقسیم ضروری ہے کیوں کہ اختلاف رائے کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی لیکن اگر یہ تقسیم سپریم کورٹ میں آجائے تو پھر عدلیہ نہیں چل سکتی۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ انتخابات کے معاملے پر حکومت کو بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، سیاست دان اپنے معاملات خود بیٹھ کر طے کرتے ہیں اور سیاسی معاملات کو کبھی بھی عدالت میں نہیں لے جانے چاہئیں، اگر ایک جماعت پارلیمان میں نہیں بیٹھنا چاہتی تو پارلیمنٹ سے باہر بھی سیاسی رہنماؤں کے درمیان بات چیت ہوسکتی ہے۔
عدالتی احکام نہ ماننے پر عدلیہ کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کی طرح وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی منصب سے ہٹائے جانے کے امکان سے متعلق سوال کے جواب میں راجا پرویز اشرف نے کہا کہ عدالتی احکامات پر منتخب وزیرِ اعظم کو گھر نہیں بجھوایا جانا چاہیے، وزیر اعظم کو ہٹانے کا آئینی و جمہوری طریقہ عدم اعتماد ہے جس طریقے سے پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کو ہٹایا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بہت واضح انداز میں ملک کو در پیش خطرات اور ان سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر قومی اسمبلی اراکین کو بریفنگ دی ہے جو کہ قانون دانوں کے لیے باعثِ اطمینان تھی۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے جس طرح آئین کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا، جس طرح پارلیمان کی سربلندی پر اپنے یقین کا اظہار کیا یہ اراکین پارلیمنٹ کے لیے باعث تقویت تھی، اس قسم کے خیالات رکھنے والی قیادت کی پاکستان کی فوج کو بہت ضرورت ہے۔
فوجی آپریشن کے حوالے سے سوال پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں ہونے جارہا البتہ دہشت گردی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف افواج کی کارروائیاں جاری رہیں گی، افواج پاکستان نے بہت کم وسائل میں بے پناہ قربانیاں دے کر دہشت گردوں کو شکست دی ہے جس کے باعث آج ملک میں ہر جگہ ریاست کی عمل داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں جب ملک کی سلامتی کو کئی خطرات درپیش ہیں، افواج پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ دانستگی یا غیر دانستگی میں یہ عمل ملک کو کمزور کرنے میں مددگار ہوگا۔
تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی کے استعفوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پی ٹی آئی وفد نے ان سے ملاقات میں فوری استعفے منظور کرنے پر زور دیا اور اس معاملے پر وہ عدالت بھی چلے گئے کہ اسپیکر ان کے استعفے منظور نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہا کہ جب استعفے منظور کر لیے تو پی ٹی آئی دوبارہ عدالت چلی گئی کہ ان کے استعفے کیوں منظور کیے گئے ہیں، یہ کیا انداز سیاست ہے کہ پہلے کہتے ہیں استعفے منظور کرو، جب منظور کر لیے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کیوں منظور کیے۔
راجا پرویز اشرف نے کہا کہ پی ٹی آئی والے کہتے تھے کہ الیکشن کراؤ، جب الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے 33 حلقوں کا انتخابی شیڈول جاری کیا تو یہ پھر عدالت چلے گئے کہ انتخاب کو روکا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جن پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرلیے ہیں اُن کی اسمبلی واپسی ممکن نہیں ہے کیونکہ اس حوالے سے فیصلے پر نظرِ ثانی کا کوئی قانون موجود نہیں ہے، البتہ اگر عدالت پی ٹی آئی اراکین کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو وہ اسمبلی واپس آسکتے ہیں۔
راجا پرویز اشرف سے سوال کیا گیا کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں نہیں ہوگی تو مذاکرات کیسے ہوں گے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت پارلیمنٹ سے باہر بھی ہوسکتی ہے، اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ بات چیت سے پہلے سیاسی درجۂ حرارت کو کم کیا جائے، افراتفری کے ماحول میں اور ایک دوسرے کا چہرا نوچ کر کوئی سیاست نہیں کرسکے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انتخابات 2 ماہ قبل یا 2 ماہ بعد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے کہ انتخابات پر امن اور شفاف ماحول میں ہوسکیں، ایسے ماحول میں انتخابات ہو بھی جائیں تو کوئی ان کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اگرچہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات وفاق سے علیحدہ ہونے کی آئین میں گنجائش موجود ہے لیکن یہ وفاقیت کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے، ماضی میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات الگ الگ ہونے کے تجربے میں بہت سی قباحتیں سامنے آتی رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب تو گلگت بلتستان اور کشمیر کی اسمبلیاں بھی تواتر سے یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ ان کے انتخاب بھی وفاق کے ساتھ منعقد کیے جائیں۔