اسلام آباد:(سچ خبریں) چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے نوٹی فکیشن کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت کی عدم موجودگی کے باعث سماعت میں وقفہ کردیں، وکیل شیر افضل مروت کے معاون وکیل نے کہا کہ مروت صاحب دوسری عدالت میں ہیں، آجائیں گے، میری استدعا ہے پراسیکیوٹرز دلائل جاری رکھیں، میں یہاں موجود ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے نہیں ہوتا، شیر افضل مروت صاحب کو بلا لیں، معاون وکیل نے کہا کہ کل بھی ٹرائل کورٹ میں پراسیکیوشن نے کہا کیس ہائی کورٹ میں ہے تو وہاں کیس 14 ستمبر تک چلا گیا۔
پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، وہاں کیس اس لیے ملتوی ہوا کیونکہ شریک ملزم کی ضمانت کا کیس 14 تک گیا ہوا تھا۔
اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے اور وزارت قانون کے نوٹی فکیشن کو عدالت کے سامنے پڑھا، وکیل نے کہا کہ وزارت قانون نے کس قانون، کس اختیار کے تحت عدالت اٹک جیل منتقل کی، اسلام آباد سے ٹرائل کیسے پنجاب میں منتقل ہو سکتا ہے؟
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ ٹرائل کی دوسرے صوبے منتقلی قانونی طور صرف سپریم کورٹ کر سکتی ہے، چیف کمشنر یا سیکریٹری داخلہ کا اختیار نہیں کہ وہ ٹرائل دوسرے صوبے منتقل کریں، سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے پیچھے بدنیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے نوٹی فکیشن کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنا تھا، ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ نوٹی فکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا گیا، آفیشل سیکرٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل اسپیشل کورٹ میں ہوتا ہے، اسلام آباد سے کسی دوسرے صوبے میں ٹرائل منتقل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد الگ سے خود مختار علاقہ ہے، کسی صوبے کی حدود میں نہیں آتا، کسی بھی عدالت کی سماعت کا مقام تبدیل کرنے کا طریقہ کار قانون میں واضح ہے، سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے لیے متعلقہ عدالت کے جج کی رضا مندی بھی ضروری ہوتی ہے۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں نہیں رکھا جاسکتا تھا، اگر ٹرائل کی تبدیلی کرنی تھی تو ان کو ٹرائل جج سے پوچھنا تھا لیکن نہیں پوچھا گیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ سابق وزیر اعظم کو اٹک جیل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت ہو چکی، چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت جوڈیشل حراست میں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کے خلاف درخواست پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ جیل ٹرائل سے متعلق نوٹی فکیشن ایک دفعہ کے لیے تھا، نوٹی فکیشن جب ایک دفعہ کے لیے تھا تو ان کی پٹیشن غیر مؤثر ہو چکی، رولز آف بزنس میں وزارت قانون کے پاس نوٹی فکیشن جاری کرنے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے صرف این او سی جاری کیا تھا، سائفر کیس میں عدالت کے مقام کی تبدیلی صرف ایک بار کے لیے تھی۔
عدالت نے وزارت قانون کے نوٹی فکیشن کی وضاحت طلب کر رکھی تھی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 30 اگست کو سائفر کیس کی سماعت کے لیے عدالت اٹک جیل منتقل کی گئی تھی، یہ نوٹی فکیشن وزارت قانون نے جاری کیا اور اسی کا ہی اختیار تھا، وزارت قانون نے این او سی جاری کیا کہ مقام کی تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جیل ٹرائل کوئی ایسی چیز نہیں جو نہ ہوتی ہو، جیل ٹرائل کا طریقہ کار کیا ہو گا، اس حوالے سے بتائیں، پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ سائفر کیس کا ابھی ٹرائل نہیں ہو رہا، وزارت قانون نے قانون کے مطابق عدالت منتقلی کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔
فریقین کے دلائل اور مؤقف سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے وزارت قانون کے نوٹی فکیشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ ہماری ایک اور درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے، ہماری استدعا ہے کہ محفوظ فیصلہ سنایا جائے، فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے ہم مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں اُس پر بھی آرڈر پاس کروں گا۔
واضح رہے کہ 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اگلے روز یعنی 30 اگست کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کردی تھی جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج اور کیس کی اٹک منتقلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، آئی جی، ڈی جی ایف آئی اے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو درخواست میں فریق بنایا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے وفاقی وزارت قانون کی جانب سے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن چیلنج کیا تھا اور درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت اٹک جیل میں منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن غیر قانونی ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
انہوں نے انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ون کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا اختیار سماعت بھی چیلنج کیا اور کہا تھا کہ انسداد دہشت گری عدالت ون کے جج اس معاملے میں مطلوبہ اہلیت کے بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔