اسلام آباد: (سچ خبریں) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب کا کہنا ہے کہ خواجہ آصف نے گزشتہ روز میرے دادا اور میرے خاندان کا نام لے کر غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اس دوران قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے گزشتہ روز خواجہ آصف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ آصف نے شاید تاریخ درست طریقے سے نہیں پڑھی اس لیے کچھ درستی کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میرے دادا ایوب خان اور میرے والد اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب تاریخ کا حصہ ہیں۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ان کے اطراف میں بیٹھے افراد مختلف جماعتوں میں شامل رہے ہیں جو اب مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں جب کہ خواجہ آصف صاحب ریحانہ ڈار صاحبہ سے شکست کھانے کے بعد بوکھلائے ہوئے ہیں اور ان کے والد ۔۔۔
اس دوران اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے انہیں مزید بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ اس طرح نہ کریں جو لوگ اس دنیا میں نہیں ہیں ان کا تذکرہ نہ کریں اور اجلاس کو آگے چلنے دیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے جنرل ریٹائرڈ ایوب خان سے متعلق بیان پر شدید احتجاج اور نعرے بازی کی تھی۔
گزشتہ روز خواجہ آصف نے ایوب خان سے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے اور اس کی ابتدا جنرل ایوب سے ہونی چاہیے، جنرل ایوب کی لاش کو قبر سے نکال کر لٹکایا جائے۔
بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بشریٰ بی بی کا توشہ خان کیس سے دور دور تک تعلق نہیں ، ہمارے لیڈر کوجیل میں ڈالا گیا، پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے، تحریک انصاف کی خواتین رہنما آج بھی جیل میں ہیں، اگر آپ عوام کے نمائندے ہوں تو آپ عوام کا ہی سوچتےہیں، ہم سب کو عمر ایوب اور ان کے خاندان پر فخر ہے۔
انہوں نے کہا خواجہ آصف تو اقامہ والے ہیں یہاں سے چلے جائیں گے لیکن ہم لوگ کہاں جائیں گے اس ملک سے؟ ہمارے لوگ تو پاکستان کی عوام کی خاطر لڑیں گے، جب اقامے والوں کو اوقات دکھاتے ہیں تو وہ ذاتیات پر آجاتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کے مطابق کہ ملک میں صرف پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لیا گیا، لیکن ہم نے پاکستان کی خاطر آگر بڑھنے کی کوشش کی، عمران خان کہہ رہے کہ میرے اوپر جو زیادتیاں ہوئیں میں معاف کرنے کو تیار ہوں ملک کی خاطر، ان پر 230 کیسز بنے، ایک کے بعد ایک کیس بنائے گئے، اس کے باوجود ان سے نشان بھی واپس لے لیا گیا لیکن عوام نے نشانات نہیں چھوڑے، عوام نے تمام نشان پہچانے اور اسی وجہ سے لوگ یہاں پارلیمان میں بیٹھے ہیں، ہم اس سب کے باجود دھرنے کیے طرف نہیں گئے، ہم استعفی کی طرف نہیں گئے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت سب سے زایدہ مقبول ترین پارٹی ہیں، آزاد رپورٹس نے اس بات کو مانا ہے، ہمارے لیڈر کو جیل میں رکھ کے آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں انصاف دلائیں گے۔
قبل ازیں، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کل جس طرح خواجہ آصف نے اسپیکر کے ساتھ بات کی ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، خواجہ آصف 80 سال کے بزرگ اور سینئر پارلیمنٹیرین ہیں لہذا انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے اورانہیں برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اسد قیصر نے فاٹا سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر فاٹا کو ٹیکس چھوٹ دی تھی اور یہ سہولیت انہیں اس لیے دی گئی تھی تاکہ وہ ملک کے دیگر علاقوں کی برابری کرسکیں لیکن افسوس انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا ایک جنگ زدہ علاقہ رہا ہے لیکن اب تک انہیں کوئی ہسپتال یا کالج نہیں دیا گیا جب کہ اس علاقے میں کسی قسم کے ترقیاتی کام بھی نہیں ہورہے، جس کا مطلب وہاں بے روزگاری پیدا ہوگی اور عوام میں مایوسی پیدا ہوگی۔ ایسے میں وہ دیگر علاقوں کی برابری کیسے کرسکتے ہیں اور اب اگر ان پر ٹیکس لاگو کردیا گیا تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ فاٹا سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے، حالانکہ میرے پاس تمام اعدادو شمار موجود ہیں، فاٹا سے تقریباً 70 ارب روپے ٹیکس کی مد میں وصول کیے جارہے ہیں لیکن فاٹا کو ضم کرتے وقت جو وعدہ کیا گیا تھا کہ 3 فیصد وفاق اور صوبہ دے گا جس میں سے ابھی تک ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔
اسد قیصر نے اسپیکر سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر ایک کمیٹی بنائیں تاکہ اس پر بحث کی جاسکے اور اس میں فاٹا کی نمائندگی بھی شامل کی جائے۔