اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اہم اجلاس آج پھر اسلام آباد میں ہوگا جس میں انتخابات کے بعد کی صورتحال اور مخلوط حکومت کے حوالے سے تجاویز پر غور کیا جائے گا۔
گزشتہ روز سی ای سی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا تھا کہ ’پیپلز پارٹی تمام سیاسی جماعتوں سے رجوع کرے گی اور اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی۔
پیپلز پارٹی کی مذاکراتی کمیٹی آج تشکیل دی جائے گی جب کہ گزشتہ روز کسی حتمی فیصلے کے بغیر ختم ہونے والا سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج سہ پہر 3 بجے دوبارہ شروع ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ اجلاس کے دوران ایگزیکٹو کمیٹی نے انتخابات کے انعقاد میں مبینہ بے ضابطگیوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔
فیصل کریم کنڈی نے صحافیوں کو بتایا کہ تمام صوبوں میں انتخابات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا، انہوں نے کہا کہ اجلاس میں موجودہ صورتحال اور ممکنہ اتحاد پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور آج پھر اس معاملے پر بات ہوگی۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ سی ای سی اجلاس صرف ایک نکتہ ہے کے مرکز میں آنے والی حکومت کا حصہ بننا یا نہیں۔
اندورونی ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی ممبران کی اکثریت نے رائے دی کہ معیشت سمیت متعدد چیلنجز کی وجہ سے پارٹی کو حکومت کا حصہ نہیں بننا چاہیے، کمیٹی چاہتی ہے کہ پارٹی سندھ پر توجہ مرکوز کرے جہاں اسے حکومت بنانے کے لیے اکثریت حاصل ہے، تاہم ذرائع نے اصرار کیا کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر کوئی بھی جماعت حکومت نہیں بنا سکتی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے وقت میں اقتدار لینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا جب کہ ملک ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے، رہنما نے مزید کہا کہ میڈیا میں چلنے والے پاور شیئرنگ فارمولے سے متعلق اجلاس میں بات نہیں ہوئی۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ پارٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا چاہتی ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر علی صبح کچھ اور شام میں کچھ اور کہتے ہیں۔
اتوار کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے لاہور میں ملاقات کی جس میں مرکز میں حکومت سازی، مستقبل کی سیاسی حکمت عملی اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے سفارشات کے تبادلے پر تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات میں مسلم لیگ (ن) نے وزارت عظمیٰ کے بدلے صدرمملکت، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے دینے کی پیشکش کی تھی جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ (ن) سے کہا تھا کہ وہ اس پیشکش پر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں غور کرنے کے بعد جواب دیں گے۔