اسلام آباد: (سچ خبریں) بی این پی مینگل نے 26 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر اپنے دو سینیٹرز نسیمہ احسان اور قاسم قاسم رونجھو کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بی این پی (مینگل) کے قائم مقام صدر ایڈوکیٹ ساجد ترین نے سابق وزرا آغا حسن بلوچ اور میر محمد ہاشم نوتیزئی سمیت دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ منگل کو نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا۔
قاسم رونجھو نے ایک ہفتہ قبل ہی بی این پی (ایم) کے سربراہ اختر مینگل کی ہدایت پر سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
خیال رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے سینیٹر قاسم رونجھو نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
اختر مینگل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کچھ زور آور لوگ تھے، وہ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے معلوم نہیں، انہوں نے 6، 7 دن مجھے مہمان بنائے رکھا۔’
بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما مسٹر نوتیزئی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی پارٹی نے 26 ویں ترمیم کو سازش قرار دیا تھا جس کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی نے 26 ویں ترمیم کا مسودہ مانگا تھا لیکن حکومت نے ہم سے شیئر نہیں کیا جس سے اس کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اس طرح کی ترمیم عوام کو کیسے ریلیف دے سکتی ہے اور عدلیہ میں اصلاحات میں مدد دے سکتی ہے جب کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں فائلوں میں بند سینکڑوں مقدمات زیر التوا ہیں۔
نوتیزئی نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ بی این پی (مینگل) کا کوئی بھی پارلیمنٹیرین 26 ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دے گا اور جو بھی پارٹی کی پالیسی کے خلاف جائے گا اسے غدار سمجھا جائے گا۔
بی این پی (مینگل) کے رہنماؤں نے اعتراف کیا کہ دونوں سینیٹرز کو ’اغوا کیا گیا اور بل کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا‘، پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے لیکن ہم اس طرح کے دباؤ کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔
نوتیزئی نے کہا کہ صوبے میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے، بلوچ نوجوانوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے ناانصافی اور وسائل کے استحصال سے مایوس ہو کر پارلیمانی سیاست سے منہ موڑنا شروع کر دیا ہے۔
بی این پی (ایم) کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ حکومت بلوچ عوام کے خلاف مظالم بند کرے اور امن و خوشحالی کو یقینی بنائے۔