سچ خبریں:امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافے اور دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ تصادم کی قیاس آرائیوں کے باوجود یوکرین میں واشنگٹن کی جنگ طلبی کے نتیجے میں امریکی فوج کے گولہ بارود کے ذخائر کی نازک صورتحال نے ماہرین کو چین کے ساتھ جنگ کی صورت میں گولہ بارود کے ذخائر کی فوری کمی کے بارے میں تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ہل اخبار کی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں امریکی گولہ بارود کے ذخائر کی نازک صورتحال کے بارے میں خبروں کے منظرعام پر آنے کے بعد یہ مسئلہ ان دنوں بہت زیادہ توجہ مبذول کر رہا ہے کہ یہ ملک کب تک اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈالے بغیر یوکرین کی حمایت جاری رکھ سکتا ہے۔
24 فروری 2022 کو روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکہ نے یوکرین کو 27 بلین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ دیا ہے جس کے باعث اس وقت امریکی دفاعی صنعت کو شدید قلت کا سامنا ہے، اس مسئلے نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے اور ماہرین کے لیے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں امریکی فوج ایک اور تنازعہ، خاص طور پر چین کے ساتھ، کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟
حال ہی میں امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے ایک جائزے میں کہا ہے کہ امریکی دفاعی صنعت چین کے ساتھ ممکنہ تصادم کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک اہم ترین نکتہ جس کی طرف یہ جائزہ اشارہ کرتا ہے وہ اس ممکنہ تنازعہ کے ابتدائی دنوں میں امریکی ریزرو ہتھیاروں کے خاتمے کا مسئلہ ہے،اس تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق آبنائے تائیوان میں جنگ شروع ہونے کے صرف ایک ہفتے بعد امریکی فوج کا طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور گائیڈڈ گولہ بارود کا ذخیرہ ختم ہو جائے گا، جو اس تصادم کے لیے بہت ضروری ہے۔
اس تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ یوکرین کی مدد کرنے سے امریکی دفاعی صنعت کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لہٰذا اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ایک اور جنگ شروع ہوتی ہے، تو فوجی پیداوار کے عمل کو تیز کرنے سمیت بنیادی تبدیلیاں کرنے کے لیے لازمی وقت نہیں ملے گا لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اب بھی بہت دیر ہو چکی ہے۔
امریکی تھنک ٹینک فار اسٹریٹجک اور بین الاقوامی مطالعات کے محققین میں سے ایک سیٹ جونز نے مذکورہ جائزے میں امریکی فوجی پیداوار کے شعبے میں موجودہ کمزوری کی وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی دفاعی صنعت کے مینوفیکچررز دسیوں سال سے افغانستان اور عراق میں جنگ کی ہتھیاروں کی ضروریات کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں امریکی فوجی کارروائیوں کی بنیاد پر سرگرم ہیں اس لیے گزشتہ برسوں میں اہم ہتھیار اور گولہ بارود تیار کرنے کی ضرورت کم ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے ہل نے اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ 20 سال میں پہلی بار کسی جنگ میں براہ راست ملوث نہیں ہوا، جو اسلحہ کے خام مال کی پیداوار کو کم کرنے کا مسئلہ ہے،اس کے علاوہ کورونا کی وبا اور اس کی وجہ سے لیبر فورس میں کمی نے نہ صرف امریکہ میں پیداوار کی رفتار کو سست کر دیا بلکہ فوجی شعبوں میں سپلائی چین کو بھی متاثر اور سست کر دیا۔
ایسی صورت حال میں تقریباً ایک سال قبل واشنگٹن نے یوکرین کو روس کے خلاف درکار فوجی ساز و سامان اور ہتھیار بھیجنے کا وعدہ کیا تھا، تاہم ماسکو اور کیف کے درمیان تنازع میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت نے اس جنگ کو دوسری جنگ عظیم (1939 سے 1945 عیسوی) کے بعد سب سے وسیع زمینی فوجی تصادم میں تبدیل کر دیا ہے،اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اب جب کہ روس اور یوکرین جنگ کے آغاز کو تقریباً ایک سال گزر چکا ہے اور اس تنازعے کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں، اس جنگ نے امریکی دفاعی صنعت کی کمزوری کو ظاہر کر دیا ہے جبکہ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کا اصرار ہے کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پینٹاگون نے امریکی گولہ بارود کے گوداموں کو دوبارہ بھرنے کے لیے پیداواری شعبے کے آرڈرز میں اضافے کا اعلان کیا تھا، اس کے علاوہ ملٹری سیکٹر کی مینوفیکچرنگ کمپنیوں نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔