سچ خبریں: المیادین چینل نے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی حالیہ دھمکیوں کے بارے میں سیاسی اور سکیورٹی تجزیہ کاروں کے خیالات کی تحقیق کی کہ آج مزاحمتی تحریک کیسے صیہونی حکومت کی مکمل تباہی کی بات کر رہی ہے۔
المیادین چینل کی ویب سائٹ نے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی حالیہ تقریر کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2006 کی تموز جنگ کو 17 سال گزر جانے کے بعد، طاقت کے وہ کون سے عناصر ہیں جن کی بنیاد پر لبنان کی حزب اللہ اسرائیل کو اتنی خوفناک دھمکیاں دیتی ہے؟ عسکری اور سیاسی حلقے طاقت کے ان عناصر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: سید حسن نصر اللہ کی ذہانت زبانزد حاص وعام
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2006 سے اس سال جولائی تک، طاقت کی مساواتیں بدلی ہیں اور نئے اصول بنائے گئے ہیں، لبنانی مزاحمت جس نے ایک دہائی قبل بیروت بمقابلہ تل ابیب کی مساوات کو آگے بڑھایا تھا، آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل کی تباہی کے خلاف لبنان کی مساوات کو پیش کر رہی ہے۔
تاہم دیکھنا یہ ہے کہ یہ دھمکیاں طاقت کے کن عناصر کی بنیاد پر دی جا رہی ہیں،سید حسن نصر اللہ کی فیصلہ کن اور طاقتور تقریر، یہ وہ عنوان ہے جسے صہیونی تجزیہ نگار 2006 میں جنگ تموز کی فتح کی 17ویں سالگرہ کے موقع پر حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی تقریر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس تقریر میں سید حسن نصر اللہ نے صیہونی حکومت کو دھمکی دی کہ اگر اس نے لبنان پر حملہ کرنے کا سوچا تو وہ پتھر کے زمانے میں لوٹ جائے گی، ان دھمکیوں نے سیاسی اور عسکری تجزیہ نگاروں کی توجہ سید حسن نصر اللہ کی صیہونی معاشرے اور اس حکومت کی فوج کے بارے میں جامع معلومات کی طرف مبذول کرائی ہے۔
اس رپورٹ میں تاکید کی گئی ہے کہ صیہونی حکومت کے اسٹریٹجک امور کے مشیر نابو کوہن نے اس سلسلے میں کہا کہ سید حسن نصر اللہ کی باتیں خوفناک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حزب اللہ کے پاس 150000 میزائل ہیں جو صرف چند منٹوں میں اسرائیل تک پہنچ جاتے ہیں تو ہمیں ایک اسٹریٹجک مسئلہ کا سامنا ہے۔
حزب اللہ کی طاقت کے عناصر
سکیورٹی اور عسکری امور کے تجزیہ کار چارلس ابی نادر نے المیادین کے ساتھ گفتگو میں تاکید کی کہ لبنانی مزاحمت کے ساتھ کسی بھی کشیدگی کی صورت میں صیہونی حکومت کو ایٹمی بم جیسے حملے کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے کہ لبنانی مزاحمت کے پاس اسٹریٹجک اہداف اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ہیں جو تل ابیب کو زمین کے نقشے سے مٹا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لبنانی مزاحمت ایک نئی ڈیٹرنس مساوات کھینچنے میں کامیاب رہی ہے کیونکہ اس کے پاس ایسے میزائل ہیں جو صیہونی حکومت کے فضائی دفاعی نظام اور آئرن ڈوم سے گزر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمتی محور جس میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اور اس سے باہر کے تمام گروہ شامل ہیں،اس کے علاوہ یہ ایران، یمن اور عراق تک بھی پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے امریکہ جیسا غیر ملکی عنصر بنیادی طور پر صیہونی حکومت کے کسی بھی تنازعے سے اتفاق کرتا ہے۔
فلسطین اور علاقائی امور کے تجزیہ کار ناصر اللحام نے اس چینل کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ حزب اللہ اب جوابی کاروائی کی دھمکی نہیں دیتی بلکہ آج وہ صیہونی حکومت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور اس حکومت کو پتھر کے زمانے میں لوٹانے کی بات کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونیوں کے درمیان اختلاف کی وجہ؟
انہوں نے کہا کہ تل ابیب اب فیصلہ ساز نہیں رہا بلکہ یہ امریکہ ہے جو براہ راست فیصلے لیتا ہے، صیہونی حکومت کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو اپنے ہر ارادے سے آگاہ کرے چاہیے وہ محدود فضائی حملہ ہی کیوں نہ ہو،اگر صیہونی حکومت حملہ کرتی ہے تو اسے کسی بھی حملے سے پہلے امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کرنی چاہیے تاکہ مزاحمت کے محور سے اس پر حملہ نہ ہو۔
عرب اور اسلامی ممالک کے تجزیہ کار قتیبہ الصالح نے بھی کہا کہ لبنانی مزاحمت صہیونی دشمن پر ایک نئی مساوات مسلط کرنے اور اپنے مطالبات اور دھمکیوں کی حد کو بڑھانے میں کامیاب ہوگئی ہے، مزاحمت کے محور کی طاقت ایسی ہے کہ وہ صیہونی حکومت کو نیست و نابود کر سکتی ہے،آج صہیونی دشمن اس میدان میں پوائنٹ ٹو پوائنٹ گیم نہیں کھیل رہا بلکہ زندگی اور تباہی کا کھیل کھیل رہا ہے۔