سچ خبریں:امریکی صدر جو بائیڈن کے خطے کے حالیہ دورے اور جدہ اجلاس میں ان کی شرکت نے اس سفر کے نتائج کے بارے میں تجزیہ کاروں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔
ریاض اور واشنگٹن کے درمیان روایتی اتحاد تھا جو عالمی طاقتوں کے تینوں فریقوں یعنی امریکہ، روس اور چین کے درمیان مقابلے کی شدت سے پہلے تک موجود تھا، تاہم افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء، یوکرین پر روس کا فوجی حملہ اور مزاحمتی محور سے وابستہ قوتوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں ناکامی جیسی صورتحال کا سلسلہ ریاض کے حکمرانوں اور خطے کے دیگر شیوخوں میں یہ تاثر پیدا کرنے کا باعث بنا کہ اپنی سیکیورٹی کو برقرار رکھنے کے لیے خود کچھ کرنا چاہیے، انھیں امریکا پر توجہ مرکوز کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی خارجہ پالیسی میں توازن پیدا کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے بیجنگ اور ماسکو کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جس میں چین کی قومی کرنسی (یوآن) کے ساتھ ہائیڈرو کاربن وسائل کی برآمد، ہتھیاروں کی خریداری، توانائی کی منڈی پر کنٹرول، نئی ٹیکنالوجی کی منتقلی، نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر، میزائل ٹیکنالوجیز کی منتقلی وغیرہ شامل ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے مسائل کے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ بائیڈن کے جدہ کے دورے میں ایک اسٹریٹجک اہداف امریکہ کے روایتی اتحادیوں کو چین اور روس کے قریب آنے سے روکنا تھا جس کے بارے میں بائیڈن نے جدہ اجلاس میں واضح طور پر کہا کہ امریکہ خطے سے نہیں نکلے گا اس لیے کہ چین، روس اور ایران اس خلا کو پر کر لیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس بیان ان کا مقصد امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب کی رائے کو بدلنے کی ایک بے سود کوشش ہے، ایک ایسی کوشش جو بین الاقوامی ترقی میں منتقلی کے عمل کو دیکھتے ہوئے بے سود لگتی ہے جو ایم بی ایس کی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرے گی۔