سچ خبریں:طالبان کی عبوری حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر نے بڑے پیمانے پر ملکی اور بین الاقوامی ردعمل کے بعد افغان یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ معطل کرنے کی وجوہات کا اعلان کیا۔
طالبان کی عبوری حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر مولوی ندا محمد ندیم نے یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ معطل کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے فیصلے کی بنیادی وجہ شرعی مسائل کی عدم پاسداری ہے، افغانستان نیشنل ٹیلی ویژن کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 14 مہینوں کے دوران یونیورسٹیوں کو شرعی مسائل کے حوالے سے ضروری احکامات دیے گئے۔
ندیم نے کہا کہ تعلیمی نظام میں کچھ تردیدیں تھیں اور حکام کے عزم کے باوجود یہ مسائل حل نہیں ہوئے، طالبان کی عبوری حکومت کے وزیر اعلیٰ تعلیم نے اپنی جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ہمارا نظام اسلامی ہے لہٰذا ہمارے ملک کے حالات بھی اسلامی ہونے چاہیے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امارت اسلامیہ کی تجویز کردہ اصلاحات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور ہم مذہبی تقاضوں اور مسلم قوم کی افکار کی وجہ سے یونیورسٹی میں لڑکیوں کی تعلیم کو اگلے نوٹس تک معطل کرنے پر مجبور ہوئے۔
ٹی وی انٹرویو میں ندیم نے یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعلیم معطل کرنے کی مندرجہ ذیل چار بنیادی وجوہات بیان کیں: 1۔افغانستان کے صوبوں میں طالبات کے ہاسٹل کی سرگرمیاں افغان غیرت اور اسلام کے خلاف ہیں۔
2۔ لڑکیوں کے لیے خاندان کے افراد کے بغیر کسی دوسرے صوبے میں تعلیم حاصل کرنا اور شرعی محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہے۔
3۔ طالبات کی طرف سے مکمل حجاب کی پابندی نہ کرنا۔
4۔ طلبا اور طالبات کا ایک ساتھ ہونا اور طالبات کی ان شعبوں میں موجودگی جو خواتین کی عزت و وقار کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
طالبان حکومت کی اعلیٰ تعلیم کے وزیر نے ان اہم وجوہات کا ذکر کیا ، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یونیورسٹیاں کب دوبارہ طالبات کے لیے کھولی جائیں گی، لیکن انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دینا اسلامی شریعت کے دائرہ کار میں سہولیات کی فراہمی پر منحصر ہے، یاد رہے افغان یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی معطلی کو اسلامی اور بین الاقوامی اداروں نیز متعدد ممالک کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔