الاقصیٰ طوفان کی وجہ سے صیہونی حکومت کی مکمل برتری خاک میں مل گئی 

الاقصیٰ طوفان

?️

سچ خبریں: صہیونی ریاست نے دہائیوں تک اپنے آپ کو فوجی برتری، معلوماتی برتری اور مکمل کنٹرول کا مالک ظاہر کیا تھا۔ مگر طوفان الاقصیٰ نامی کارروائی نے صرف ایک صبح میں اس تصویر کو پارہ پارہ کر دیا۔
 اس طوفان نے دشمن کی طاقت کو ناقابلِ تلافی طریقے سے چکنا چور کر دیا۔ اسرائیلی ریاست کو ساری دنیا کے سامنے ذلیل ہونا پڑا۔
اس کارروائی نے وہ سب کچھ بے نقاب کر دیا جو چھپایا جا رہا تھا: اسپتالوں، سکولوں اور مساجد کی تباہی؛ بچوں اور عورتوں کا قتلِ عام؛ اور ان کا منافقت بھرا رویہ جو انسانی حقوق کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ سارے مظالم پوری دنیا پر عیاں ہو گئے۔ مزاحمت کی اسیرئیل کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں گھسنے، فوجی اڈوں پر قبضہ کرنے اور اسرائیلی فوجیوں کو قیدی بنانے کی صلاحیت نے قبضہ کاروں پر ایسا نفسیاتی اور اسٹریٹجیک دھچکا لگایا جو 1948ء کے بعد سے بے مثال تھا۔
طوفان الاقصیٰ کارروائی کی دوسری سالگرہ کے موقع پر ہم نے ایران میں فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے نمائندہ "ناصر ابوشریف” سے خصوصی بات چیت کی، جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
سوال: طوفان الاقصیٰ کارروائی کو گزرے دو سال ہو چکے ہیں، اس واقعے کا فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں کیا مقام ہے؟
جواب: طوفان الاقصیٰ کارروائی ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی، کیونکہ اس نے اسرائیل کی مطلق بالادستی کے مفروضے کو توڑ کر رکھ دیا اور فلسطین کے مسئلے کو دنیا بھر میں عوامی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ اس لیے اب "باہمی روک” کا اصول کام کر رہا ہے۔ دشمن میں نقصان پہنچانے کی صلاحیت تو ہے لیکن وہ اس تصادم کو فیصلہ کن انجام تک پہنچانے سے قاصر ہے، اور اس پر بیرونی اور اندرونی حملے کا خرچہ بہت بڑھ چکا ہے۔
سوال: دنیا بھر میں فلسطینی عوام کی حمایت میں ہونے والی عوامی اور خود رو کوششوں، جیسے غزہ کی طرف "میڈلین”، "حنظلہ” اور "صمود” جہازوں کا بھیجا جانا، کو دیکھتے ہوئے طوفان الاقصیٰ کا امتِ مسلمہ اور آزادی پسند قوموں کے لیے کیا پیغام ہے؟
جواب: اس قسم کی خود رو اور عوامی کوششوں کے دو پیغام ہیں۔ ایک پیغام فلسطینی عوام کے لیے ہے جو یروشلم اور فلسطین کی زمین کا دفاع کر رہے ہیں۔ دوسرا پیغام پوری دنیا کے لیے ہے، اور وہ یہ کہ وہ فلسطینی قوم پر قبضہ کار ریاست کے مظالم سے تنگ آ چکے ہیں اور غزہ کی پٹی کے محاصرے کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سوال: محورِ مزاحمت کا اب کیا مقام ہے اور جنگ کے بعد اس کی ترجیحات کیا ہیں؟
جواب: محورِ مزاحمت اب اعلیٰ سطحی ہم آہنگی اور باہم مربوط روک کے مقام پر کھڑا ہے۔ جنگ بندی کو مستحکم کرنا اور شہریوں کی حمایت کرنا، فلسطینی سیاسی راستے کو متحد کرنا، ذہین روک کو فروغ دینا، اور اسرائیلی جنایات کی قانونی و سفارتی سطح پر پیروی کرنا محورِ مزاحمت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
سوال: طوفان الاقصیٰ کا صہیونی معاشرے اور نیٹن یاہو کی کابینہ کے مستقبل پر کیا اثر ہوا ہے؟
جواب: طوفان الاقصیٰ نے ساختی دراڑوں کو بے نقاب کر دیا ہے، جیسے اسرائیلی سلامتی اداروں کے خلاف اعتماد کے بحران اور اس ریاست کے معاشی زوال کا مسئلہ۔ یہاں تک کہ اگر نیٹن یاہو کی موجودہ کابینہ عارضی طور پر برقرار بھی رہ جاتی ہے، تو اس کی اسٹریٹجک افق تنگ اور بھاری قیمت پر مشتمل ہے۔
سوال: نئی فلسطینی نسل میں مزاحمت کا کلچر کس طرح پھیل رہا ہے؟
جواب: "عملی مزاحمت” ایک معمول بن چکی ہے۔ گولہ باری کے درمیان تعلیم حاصل کرنا، رضاکارانہ کام کرنا، بقا کے لیے کاروباری سرگرمیاں شروع کرنا، اور کئی زبانوں میں مواد تیار کرنا ہی نئی فلسطینی نسل کا کلچرِ مزاحمت ہے۔ مزاحمت نعرے بازی سے نکل کر ایک "طرزِ زندگی” بن چکی ہے۔
سوال: کیا طوفان الاقصیٰ نے تل ابیب کی قبضہ کار پالیسیوں کے خلاف عالمی محاذ بنانے کا راستہ ہموار کیا ہے؟
جواب: جی ہاں، اس نے نہ صرف فوجی محاذ بلکہ اسرائیل کے خلاف اخلاقی اور قانونی دباؤ کا ایک کثیرالپہتی جال بھی تشکیل دے دیا ہے۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک میں اضافہ، اسرائیل پر اسلحہ کی پابندیاں عائد کرنا، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات میں اضافہ، اور صہیونیت پسندوں کے خلاف پابندیوں کی لہر میں تیزی، ان سب کی مثالیں ہیں جو صہیونی ریاست پر کثیرالپہتی دباؤ کا جال بناتی ہیں۔
سوال: عالمی ردعمل، خاص طور پر مغربی حکومتوں کے موقف کا عالمی نظم پر کیا اثر ہوگا؟
جواب: 7 اکتوبر کے بعد حکومتوں اور عوامی رائے کے درمیان خلیج گہری ہو گئی ہے۔ اس کا عملی پیغام یہ ہے کہ "بین الاقوامی انسانی قانون” اب ایک خرچہ بڑھانے والا ذریعہ بن چکا ہے اور مغربی نقطہ نظر کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے۔ ہم "اخلاقی و قانونی کثرت” کی طرف بڑھ رہے ہیں جو قبضے کی قیمت کو مزید بڑھا دے گی۔
سوال: اس کارروائی کا خطے میں محورِ مزاحمت کی تشکیل اور مضبوطی پر کیا اثر ہوا ہے؟
جواب: محاذوں کے درمیان میدانِ کارزار میں رابطہ اور ہم آہنگی بڑھی ہے، لیکن جھڑپوں کی رفتار کو اس طرح کنٹرول کیا گیا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ میں نہ بدل جائیں۔ درحقیقت، محورِ مزاحمت کی فعالیت میں ہم آہنگی مزید واضح ہوئی ہے اور اسرائیل پر مسلسل قیمت مسلط کرنے کی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔
سوال: طوفان الاقصیٰ نے روک کے توازن میں کیا تبدیلی پیدا کی ہے؟
جواب: طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل کی یک طرفہ روک کو "باہمی جزوی روک” میں بدل دیا ہے۔ اب ہر وسیع جارحیت اسرائیل کے لیے گہرائی میں جانی و مالی نقصان اور سیاسی تنہائی کا سبب بنتی ہے، بغیر اس کے کہ دشمن کے نقصان پہنچانے کی صلاحیت کو نظر انداز کیا جائے۔

مشہور خبریں۔

کیا پی ٹی آئی کا مخصوص نشستوں کی فہرست تبدیل کر رہی ہے؟

?️ 17 جولائی 2024سچ خبریں: پاکستان تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کی فہرست کو تبدیل

سلامتی کونسل کا لبنان میں UNIFIL مشن کی توسیع پر زور

?️ 25 اگست 2025 سچ خبریں: سلامتی کونسل نے پیر کے روز لبنان میں اقوام

ایران کی قیادت یا نظام پر حملہ ہوا تو پاکستانی عوام کا ردعمل سخت ہوگا؛جماعت اسلامی کا انتباہ 

?️ 7 جولائی 2025 سچ خبریں:جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے امریکہ

’سپر مین‘ کا ٹیزر سب سے زیادہ دیکھا جانے ٹریلر بن گیا

?️ 21 دسمبر 2024سچ خبریں: آنے والی سائنس فکشن سپر ہیرو فلم ’سپر مین‘ کا

صہیونی میڈیا کارکن کا نیتن یاہو پر سخت حملہ

?️ 21 جولائی 2025صہیونی میڈیا کارکن کا نیتن یاہو پر سخت حملہ، تم اسرائیل کو

نیب ترامیم بل، چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کیلئے کمیٹی کے قیام کی قرارداد منظور

?️ 15 مئی 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیف جسٹس سمیت سپریم

افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کا وقت ختم

?️ 10 جون 2022سچ خبریں: افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ ڈیبرا لائنز

عراق اور شام کی سرحدوں پر 10 ہزار دہشت گردوں کی موجودگی

?️ 12 اگست 2022سچ خبریں:اقوام متحدہ نے عراق اور شام کی سرحدوں پر 10,000 دہشت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے