(سچ خبریں) کورونا وائرس کے انفیکشن کو قابو میں رکھنے کے مقصد سے بیشتر ملکوں نے مساجد میں نمازیوں کی آمد پر معمول کی گنجائش سے بیس تا تیس فیصد کمی نافذ کر دی ہے، مسجد میں آنے والے تمام لوگوں کے لیے ماسک پہننا لازمی ہوگا۔ اس کے علاوہ مساجد سے باہر بھیڑ کم کرنے کے مقصد سے روایتی افطاری اور سحری کے پروگراموں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
اس بندش کی وجہ سے ایسے حاجت مند افراد کافی متاثر ہوں گے جنہیں رمضا ن کے دوران بالعموم افطار اور سحری بہ سہولت اور مفت میں دستیاب ہو جاتی تھی, تاہم متحدہ عرب امارات جیسے بعض ممالک نے غریب اور ضرورت مند افراد کو افطار ان کے گھروں تک پہنچانے کا نظم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
بیشتر مذہبی علماء کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کی صورت حال کے مدنظر رمضان کے مہینے میں گھروں میں رہ کر ہی عبادت کرنا زیادہ محفو ظ رہے گا۔
پوری دنیا میں کورونا کی یلغار بدستور جاری ہے، اِس یلغار میں رمضان المبارک کا آغاز ہوگیا ہے، گزشتہ سال بھی رمضان آیا تو کورونا دندنا رہا تھا اور لوگوں پر ایک خوف طاری تھا، مسلمان ملکوں میں مساجد خاص طور پر اس پابندی کی زد میں آگئی تھیں کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگ مساجد میں نہ جانے پائیں اور جو لوگ جائیں وہ ایس او پیز کی پوری پابندی کے ساتھ نماز اور تراویح ادا کریں۔
اس پابندی نے مساجد کو بڑی حد تک ویران اور بے رونق کردیا تھا، پاکستان میں ممتاز اور جید علمائے کرام نے اعلان کیا تھا کہ ان کی عمر چوں کہ ساٹھ سال سے متجاوز ہے اس لیے وہ اپنے گھروں میں نماز اور تراویح ادا کریں گے یہ بالواسطہ طور پر ایک طرح کی عام مسلمانوں کو ہدایت تھی کہ اس عمر کے لوگ مساجد میں جانے سے گریز کریں۔
اب کی دفعہ علمائے کرام کی طرف سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا، البتہ سرکاری مشینری (انتظامیہ) اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ مساجد سے صفیں اُٹھا دی جائیں اور لوگ ننگے فرش پر یا گھروں سے لائی ہوئی جانمازوں پر نماز پڑھیں، اکثر مساجد میں انتظامیہ کو مزاحمت کا سامنا ہے کیوں کہ مسجدوں کے منتظمین اس پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی نمازی اس پر آمادہ ہیں۔
یہ حقیقت بھی کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ مسجدوں سے کورونا نہیں پھیلا، لوگ وضو کرکے مسجد میں آتے ہیں جو بہترین سینی ٹائزر ہے اور نماز میں نظم و ضبط برقرار رکھتے ہیں۔ اس طرح کورونا کو پھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔
اس بار رمضان المبارک شروع ہوا ہے تو کورونا کی شدت پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے، یومیہ ہلاکتیں ایک سو سے بڑھ گئی ہیں لیکن اس کے باوجود پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال لوگوں میں خوف نہیں ہے، مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں، پہلی تراویح میں ہم نے دیکھا کہ مسجد کا ہال اور صحن نمازیوں سے بھرا ہوا تھا اور اوپر کی منزل بھی نمازیوں سے لبریز تھی۔
ایک نمازی کہہ رہا تھا کہ یہ کورونا یہودیوں کی سازش ہے، انہوں نے پچھلے سال اعلان کردیا تھا کہ حج رُک جائے گا اور واقعی حج رُک گیا، مسلمانوں کے اس عالمگیر اجتماع پر پابندی لگادی گئی، دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لاکھوں مسلمان اس فریضے کی سعادت سے محروم رہ گئے، جب کہ اس سے پہلے رمضان میں بھی مسلمانوں کو عمرہ ادا نہیں کرنے دیا گیا، اس بار بھی یہی صورت حال ہے۔
سعودی حکومت نے عمرے پر پابندی لگادی ہے اور حرمین شریفین میں اعتکاف اور اجتماعی افطاری کرنے سے روک دیا گیا، ورنہ اِن دنوں وہاں کیا رونق ہوتی تھی۔ ابھی جماعت میں کچھ دیر تھی اور وہ شخص پورے جوش و خروش سے بول رہا تھا، اس کی بات ختم ہوئی تو دوسرے شخص نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھائی ہم اپنی نالائقیوں کا الزام بڑی آسانی سے یہودیوں پر ڈال دیتے ہیں، اگر کورونا یہودی سازش ہے تو یہودیوں کے دوست ممالک اس سے کیوں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
امریکا میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران یومیہ ایک ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہورہی تھیں، بھارت یہودیوں کا دوست ہے لیکن وہاں کورونا کی صورت حال پاکستان سے بہت زیادہ خراب ہے، روزانہ ہلاکتوں کا گراف آٹھ سو سے اوپر چلا گیا ہے لیکن ان ملکوں نے کسی کو الزام دینے کے بجائے اس وبا سے نمٹنے کی منظم منصوبہ بندی کی ہے۔
امریکا، یورپ اور بھارت نے اپنے طور پر کورونا ویکسین تیار کی ہے اور اپنے شہریوں کو اپنی ویکسین لگارہے ہیں، البتہ مسلمان ملکوں سے کسی نے بھی کورونا ویکسین تیار نہیں کی، پاکستان ایٹم بم تو بنا سکتا ہے لیکن ویکسین بنانے سے عاجز ہے، وہ چین کی امداد پر گزارہ کررہا ہے، اب ہمارے وزیر خارجہ جرمنی سے یہ خبر لائے ہیں کہ جرمنی بھی ہمیں کورونا ویکسین کی ڈیڑھ کروڑ خوراکیں دے گا اور ہمیں کیا چاہیے۔
اس نوجوان کی تقریر بھی بڑی پُرجوش تھی، ہر طرف سناٹا چھا گیا، ہم جب یہ سطور لکھ رہے ہیں تو آج پہلا روزہ ہے، سحری کے وقت بازار کھلا ہوا تھا، کھانے پینے کی دکانوں پر گاہکوں کی قطاریں لگی تھیں، دودھ دہی کی دکانوں پر تو خاصا رش تھا، ایسے میں لوگ نہ ماسک پہنے ہوئے تھے نہ کسی اور ایس او پی کو خاطر میں لارہے تھے، بس انہیں سامان گھر لے جانے کی جلدی تھی۔
مسجدوں میں بالعموم فجر کی نماز طلوع آفتاب سے تیس چالیس منٹ پہلے ہوتی ہے لیکن رمضان میں وقت تبدیل ہوجاتا ہے اور کم و بیش تمام مساجد میں سحری کے پندرہ منٹ بعد نماز فجر کھڑی ہوجاتی ہے، یہ اول وقت ہے اور اول وقت میں نماز فجر ادا کرنا اللہ کے رسولؐ کا معمول تھا، نماز فجر کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسجد ہی میں تلاوت اور اذکار میں مصروف رہتی ہے اور اشراق کے نوافل ادا کرکے گھروں کو رُخصت ہوتی ہے۔
رسولِ پاکؐ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ نماز فجر کے بعد اپنی جگہ بیٹھے اللہ کے ذکر میں مصروف رہے ہیں اور اشراق پڑھ کر اپنی جگہ سے اُٹھتے ہیں انہیں حج و عمرہ کے ثواب سے نوازا جاتا ہے، عام دنوں میں تو شاید یہ ممکن نہ ہو لیکن رمضان تو نیکیوں کا موسم بہار ہے اس میں ہر روز حج و عمرہ کا ثواب حاصل کرنے کا روزہ داروں کو موقع مل جاتا ہے۔
خدا سے دعا ہے کہ اس ماہ رمضان کے صدقے میں دنیا بھر سے اس وبا کا خاتمہ ہو اور پوری دنیا میں لوگوں کو سکون اور صحت نصیب ہو۔