(سچ خبریں) افغانستان کے صدر اشرف غنی اور اعلی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے جمعے کو امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات کی، یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے مکمل انخلا میں مصروف ہیں اور دوسری جانب طالبان کی طرف سے ملک کے مختلف اضلاع پر قبضے اور پیش قدمی کا سلسلہ جاری ہے۔
امریکہ کے اندر، افغانستان سے انخلا کے فیصلے کے حق اور اس کی مخالفت میں تبصرے اور تجزے بھی جاری ہیں، جو بائیڈن اور انخلا کے حامیوں کا موقف ہے کہ امریکہ نے نیویارک پر دہشت گرد حملے کے بعد اس حملے کے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی کے لیے افغانستان کا رخ کیا تھا اور جو مقاصد سامنے تھے، حاصل کر لیے گئے ہیں۔ صدر بائیڈن کے بقول، القاعدہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور اس کے سربراہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔
فوری انخلا کے مخالفین کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان سے جب نکل رہا ہے، طالبان اس پر قابض ہونے کے لیے تیار ہیں، وہ آج پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں اور امریکہ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ روابط قائم رکھے ہوئے ہیں۔
انخلا کے مخالفین کا خدشہ ہے کہ افغانستان ایک بار پھر بڑی خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے اور اس صورت حال کو عسکریت پسند گروپ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان کے صدر اور قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ امریکہ کے صدر سے کیا توقعات لیے واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں؟ امریکہ کے صدر کم و بیش 50 فیصد انخلا مکمل کرنے کے بعد افغانستان کی قیادت کو کیا یقین دہانی کرا سکتے ہیں اور کیا کچھ نیا اس ملاقات میں سامنے آسکتا ہے؟ پاکستان کس حد تک موضوع گفتگو ہو گا؟ ترکی، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک سے فوجی کردار کے امکان پر بات ہو سکتی ہے؟
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک نیو لائنز کے ڈائریکٹر اینالیٹکل فار سٹریٹجی اینڈ پالیسی کے کامران بخاری نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے پاس ایک دوسرے سے کچھ نیا کہنے سننے کے لیے زیادہ کچھ موجود نہیں ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ کوئی خاص قابل ذکر نئی بات ہو گی، ایک نئی بات یہ ہو سکتی ہے کہ کہا جائے کہ افغانستان کے اندر وار لارڈ یعنی قبائلی جنگی سرداروں کو ریاست کی سیکیورٹی پر بھروسہ نہیں اور وہ اپنی اپنی ملیشیاز تیار کر رہے ہیں اور وہ خود سے طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں، تو اس کا کچھ کیا جائے، امریکہ بھی یقیناً نہیں چاہے گا کہ افغان سیکیورٹی فورسز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں اور وہ آگے چل کر ملیشیاز کی شکل اختیار کر لیں اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو جائے‘‘
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر مارون وائن بام نے امریکی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے قائدین یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ امریکہ انخلا کے بعد بھی افغانستان کی معاشی مدد جاری رکھے گا اور اس کو ضرورت پڑنے پر فوجی کارروائیوں میں فضائی تعاون بھی فراہم کرنے کا اہتمام کرے گا۔
یہ سوچنا مشکل لگتا ہے کہ صدر بائیڈن اپنے مہمانوں کو کچھ ایسی پیشکش کر سکتے ہیں جو وہ پہلے نہ دے چکے ہیں، صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ یہ خواہش کر سکتے ہیں کہ ان کی افواج کی فضا سے مدد جاری رکھی جائے۔ اس وقت یہی سب سے اہم کردار ہو سکتا ہے جو امریکہ افغانستان میں ادا کر سکتا ہے۔
تاہم، مارون وائن بام کے مطابق امریکہ کے لیے بھی یہ کام زیادہ آسان نہیں ہے، کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ وہ فضائی آپریشن، غالب امکان ہے، صرف خلیجی ممالک میں ہی رہ کر جاری رکھ سکے، کیونکہ خطے کا کوئی ملک امریکہ کو فوجی اڈے دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اس طرح محض ڈرون حملوں اور افغان فضائیہ کے جہازوں کی پرزوں کے ذریعے مدد شاید کافی نہ ہو کیونکہ ایسا کوئی معاہدہ بھی موجود نہیں ہے جو اس کے اطلاق کی صورتیں واضح کرتا ہو۔
طالبان کو معلوم ہے کہ وہ کئی اضلاع پر قبضے کے باوجود کسی بڑے شہر پر قابض نہیں ہو سکے ہیں، ان کے پاس فضا سے حملوں کا کوئی توڑ نہیں ہے، اور طالبان یہ بھی جانتے ہیں کہ افغانستان پر حکومت کرنے کے لیے دنیا سے وسائل بھی چاہییں اور دنیا سے خود کو منوانا بھی ضروری ہے۔
امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودہ تعداد اگرچہ اس سے کہیں کم ہے جو افغانستان پر حملے اور اس کے بعد کے وقتوں میں رہی ہے۔ غیر ملکی افواج اگرچہ ایک عرصے سے زمینی کارروائیوں سے زیادہ تربیت اور دیگر لاجسٹکس کے معاملات دیکھ رہی ہیں، لیکن طالبان کے لیے ان افواج کی موجودگی کی ایک اہمیت ضرور ہے کہ وہ کسی بھی غیر ملکی فوجی پر براہ راست حملے سے گریز کرنے کی حکمت عملی پر کارفرما نظر آتے ہیں۔
اس چیز کو دیکھتے ہوئے کیا افغان قیادت امریکہ کے صدر سے مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ انخلا کے عمل کو طوالت دیں تاکہ اس دوران افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری تنازع کے سیاسی حل کے امکانات پر زور دیا جا سکے؟
اس سوال کے جواب میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان سنٹر کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ اس بارے میں دباؤ ضرور ہے کہ انخلا کے عمل کو سست کیا جائے۔
ایسے میں جب صدر بائیڈن ستمبر گیارہ کی ڈیڈ لائن دے چکے ہیں، اور بڑی حد تک افواج اور ساز و سامان افغانستان سے نکال لیا گیا ہے، انخلا میں توسیع کے بہت کم امکانات ہیں۔ اور نہیں لگتا کہ صدر بائیڈن اپنے عزم سے پیچھے ہٹیں گے۔
کامران بخاری کے مطابق اگر صدر بائیڈن سے کہا جائے کہ انخلا کا عمل سست کیا جائے تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکی افواج 20 سال تک تو افغانستان میں رہی ہیں، مزید کتنا رہ سکتی ہیں۔
دوسری جانب طالبان افغان قیادت کے دورۂ امریکہ کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔
طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق افغان امن عمل میں تیزی لانے اور افغانستان کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو رواں ہفتے دوحہ آنا تھا۔ تاہم انہوں نے اس اہم موقع پر دورۂ امریکہ کو ترجیح دی۔
سہیل شاہین نے کہا کہ موجودہ افغان حکومت کو افغانستان کے مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو دوام دینے میں زیادہ دلچسپی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ افغان قیادت پر یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر افغان قیادت ان کے ساتھ مستقبل میں اسلامی نظام کے قیام پر اتفاق کریں تو طالبان جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔
ان کے بقول، افغان حکومت طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی صورت میں اپنی حکومت کا دورانیہ مکمل کرنا چاہتی ہے۔
افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جاری جھڑپوں کے بعد شہریوں نے محفوظ مقامات کی جانب منتقلی شروع کر دی ہے، اگر یہ لڑائی طول پکڑتی ہے تو ایک مرتبہ پھر افغان عوام کو ہجرت کا سامنا پڑ سکتا ہے۔