(سچ خبریں) جب سے بھارت میں انتہاپسند جماعت بی جے پی برسراقتدار آئی ہے اور نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبہالا ہے تب سے بھارت کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے اور جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارت کا جھوٹ اس قدر برملا ہوچکا ہے کہ خود بھارت کی بڑی جماعت کانگریس نے یہ اعلان کیا ہے کہ بھارت اب جمہوری نہیں بلکہ ایک آمرانہ اور انتہاپسند ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔
اگرچہ مودی حکومت کی جانب سے ظالمانہ قوانین کے خلاف پورے بھارت میں آئے دن احتجاج ہوتے رہے ہیں لیکن ان دنوں جس احتجاج نے دنیا بھر میں بھارت کو بے نقاب کیا ہے وہ بھارتی کسانوں کی جانب سے کیا جانے والا احتجاج ہے جس نے موجودہ حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
بھارتی حکومت کے خلاف بھارتی کسانوں کے احتجاج اور تحریک کا سلسلہ جاری ہے بھارتی کسان سرکار کے ظالمانہ قوانین کو منسوخ کرنےکے اپنے ٹھوس مطالبات پرسیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند قائم ہیں۔
بھارتی کسانوں کی جاری تحریک بھارتی سرکار کے آمرانہ اور ظالمانہ فیصلوں کے خلاف ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر تحرک میں تبدیل ہوگئی ہے، کسانوں کی تحریک ملک کی دیگر چھوٹی تنظیموں کے لیئے اعلیٰ عملی نمونہ بن رہی ہے، لیکن بھارتی سرکار طاقت کے بے جا استعمال کے ذریعہ کسانوں کی ناقابل شکست تحریک کو کچلنے اور دبانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔
بھارتی حکومت کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کی بھی کوشش کررہی ہے تاکہ اس کے خلاف پورے ملک میں ایک پرتشدد ذہنیت تیار ہوجائے جیسا کہ گزشتہ برس شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف تیار کی گئی تھی اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ سی اے اے کی مخالفت کرنے والےغدار ہیں جہادی ہیں ماؤ نواز ہیں اس کو بدنام کرنے کے لیے پورے سماج بالخصوص ہندوؤں کے اندر نفرت پیدا کی گئی اوراسی کے نتیجے میں تحریک چلانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سے لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
بھارتی حکومت کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے کے راستے پر گامزن ہے بھارتی سرکار کے کسانوں کے ساتھ تمام مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ کسان بھارتی سرکار کو مذاکرات میں سنجیدہ تصور نہیں کرتے ہیں ۔
کسانوں نے بھارتی سرکار کے ساتھ مذاکرات اوراس کے ناکام منصوبوں کی نبض پکڑ کر اس کی بدنیتی اور بیماری کا خوب جائزہ لیا ہے بی جی پی مختلف طریقوں سے دیش بھگتی، سیکولرزم وغیرہ کا نقاب لگا کر اصلی چہرہ چھپانے کے در پے ہے اس سلسلے میں کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا جس کسان کے وجود کو زرعی قوانین کی بیماریوں سے خطرہ ہو وہ سڑک پر ہی آئے گا اوروہ اپنے حقوق کا احتجاج اور بلند آواز کے ذریعہ دفاع کرے گا۔
مودی حکومت کسانوں کو آہستہ آہستہ کر کے ختم کرنا چاہتی ہے، یہ بھارت میں کیپٹلزم کے نئے طوفان کی آمد کا اشارہ ہے، کسان، حکومت کی اس پالیسی کو سمجھ چکے ہیں لہذا وہ اپنے حقوق کے دفاع کے لئے سراپا احتجاج بن کر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
کسان تحریک کو بھارت کے مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی طبقات کی بھر پور حمایت حاصل ہے ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان اس تحریک میں پیش پیش ہیں۔
اس تحریک میں مسلم خواتین بھی شامل ہوگئی ہیں اور گذشتہ جمعہ کو انھوں نے نماز ادا کی اور ان مسلم نمازی خواتین کی حفاظت کے لئے سکھ اور جاٹ کسان دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔
ایسے قرائن اور شواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کسانوں کی تحریک مضبوط انداز میں کامیابی کی طرف گامزن ہے، بھارتی کسان بھارتی سرکار کی توقعات سے کہیں زیادہ مضبوط ثابت ہوئے ہیں، بھارتی شہری بلا تفریق مذہب و ملت ایکدوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ بے مثال اتحاد کسان تحریک کی کامیابی کی علامت اور بھارت کی ترقی کا مظہر ہے۔