اسلام آباد: (سچ خبریں) گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث بدنام زمانہ سرجن فواد ممتاز نظامِ انصاف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پنجاب پولیس کے لیے ایک ’ٹیسٹ کیس‘ بن گیا ہے جسے لاہور پولیس نے چند روز قبل حراست سے فرار ہونے کے بعد دوبارہ گرفتار کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فواد ممتاز کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور پنجاب پولیس نے متعدد بار مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا لیکن ہر بار وہ ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا تھا اور گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔
اپنے مجرمانہ ریکارڈ کے مطابق فواد ممتاز 2009 سے ملک بھر میں بالخصوص پنجاب، خیبرپختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر میں گردوں کے غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کا سب سے بڑا ریکیٹ چلا رہا تھا۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ فواد ممتاز اصل میں سرکاری لاہور جنرل ہسپتال میں پلاسٹک سرجن تھا، جب اسے پہلی بار گردے کی غیرقانونی پیوندکاری کرنے پر ملازمت سے معطل کیا گیا اس وقت وہ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔
بدنام زمانہ سرجن مبینہ طور پر اس دھندے سے ارب پتی بن گیا، امیر گاہکوں کا استحصال کرتا اور گاہکوں، بالخصوص خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے گاہکوں سے غیر قانونی ٹرانسپلانٹ آپریشن کرنے کے لیے بہت زیادہ رقم وصول کرتا تھا۔
ایف آئی اے اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق فواد ممتاز گردے کی غیر قانونی پیوند کاری کے لیے غیرملکی گاہکوں/مریضوں سے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کرتا اور مقامی عطیہ دہندگان کو ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرتا، جو اس کے گینگ کے ارکان کی جانب سے ملازمت یا دیگر لالچ کے جھانسے میں آجاتے تھے۔
یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم صوبے بھر کے شہروں میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں کرائے کے مکانوں میں غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کرتا تھا، چند روز قبل لاہور پولیس نے اسے ٹیکسلا سے گارڈن ٹاؤن تھانے میں درج مقدمے کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر فواد ممتاز پولیس کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
اس حوالے سے جاری باضابطہ بیان میں وضاحت فراہم کی گئی کہ ملزم کے 4 مسلح ساتھیوں نے پولیس ٹیم پر حملہ کیا اور اسے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے، اس واقعے نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو پریس کانفرنس کرنے پر مجبور کردیا۔
انہوں نے اتوار (یکم اکتوبر) کو پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ فواد ممتاز کو لاہور پولیس نے دوبارہ گرفتار کر لیا ہے اور ان پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی تجویز دی گئی ہے جنہوں نے اسے فرار ہونے میں کامیاب ہونے سے قبل حراست میں لیا تھا۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور عمران کشور نے بتایا کہ ملزم جسمانی ریمانڈ پر ہے اور پولیس اس سے پوچھ گچھ کر رہی ہے، اُس کے فرار کے ذمہ دار اہلکاروں کو ملازمت سے معطل کر دیا گیا ہے اور انہیں سزا دینے کے لیے محکمانہ انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ فواد ممتاز کا ایک دہائی پر محیط مجرمانہ ریکارڈ ہے، فی الوقت اُس کے خلاف لاہور، ملتان، اوکاڑہ، بہاولپور، فیصل آباد، ٹیکسلا اور راولپنڈی میں متعدد مقدمات درج ہیں۔
اُس کے خلاف آخری مقدمہ ٹیکسلا میں درج کیا گیا تھا، جہاں پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی اور مقامی پولیس کی مشترکہ ٹیم نے مارچ میں چھاپے کے دوران ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس سمیت 6 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔
گردے کی غیر قانونی پیوندکاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عہدیدار نے بتایا کہ فواد ممتاز نے فروری 2020 میں آزاد جموں و کشمیر میں معروف کامیڈین عمر شریف کی بیٹی کے گردے کی پیوند کاری کی تھی۔
ٹرانسپلاٹ کے دوران عمر شریف کی بیٹی کو سنگین پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اسے لاہور کے ہسپتال لایا گیا جہاں وہ انتقال کر گئی، فواد ممتاز نے آزاد جموں و کشمیر میں غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کرنے کے لیے اس خاندان سے 35 لاکھ روپے وصول کیے کیونکہ اس علاقے میں انسانی اعضا کی غیرقانونی پیوند کاری کی روک تھام کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
ایف آئی اے کی ٹیمیں فواد ممتاز کو اس سے قبل لاہور میں اس کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہی تھیں اور وہ روپوش ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، اسے اپریل 2017 میں ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا، جب اس نے لاہور کی ای ایم ای سوسائٹی میں اردن، لیبیا اور عمان سے تعلق رکھنے والے شہریوں سے 60 لاکھ روپے کے عوض اُن کا غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کیا، بعد ازاں غیرقانونی ٹرانسپلاٹ کے دوران اردن سے تعلق رکھنے والی خاتون شہری کی موت واقع ہوگئی تھی۔
مقتول خاتون کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ فواد ممتاز کے ایک ساتھی ڈاکٹر التمش کھرل نے جعلی تیار کیا تھا اور لاش کو اردن واپس بھیجنے سے قبل ڈیفنس کے ایک اور نجی ہسپتال میں رکھا گیا تھا، اُس وقت ایف آئی اے نے فواد ممتاز اور اس کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔