اسلام آباد:(سچ خبریں) نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت شفافیت اور مالی احتیاط“ کو یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں کے بے بنیاد الزامات کے تناظر میں مفت آٹے کی تقسیم کے پروگرام کا آزادانہ آڈٹ کر انے جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ نظام کچھ نہیں کر سکتا، ابھی 84 ارب روپے کی لاگت سے آٹے کی تقسیم ہوئی ہے، میں معذرت سے کہوں گا کہ اس میں 20 ارب سے زائد کی چوری ہوئی ہے۔
لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ 10 برس میں تمام جماعتیں حکومت میں رہی ہیں، کیا وہ مسائل حل کر سکی ہیں، یہ کہنا کافی نہیں کہ مجھے منتخب کرا دیں پھر دیکھیں میں کیا کرتا ہوں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ اس وقت پارلیمان میں 40 فیصد اراکین وہ لوگ ہیں جن کی سیاسی جماعت کسی کو بھی ان سیٹوں پر لا سکتی ہے، آج یہ 10 رکنی کابینہ نہیں بنا سکتے جو ملکی معاملات کو سمجھ سکتے ہوں۔
شاہد عباسی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر نے کہا تھا کہ آٹا اسکیم کو پارٹی کی اندرونی سیاست کی بھینٹ چڑھانا سراسر زیادتی ہے، سابق وزیر اعظم معذرت کریں یا ثبوت مہیا کریں، یہ الزامات جھوٹے اور من گھڑت ہیں، حکومت پنجاب نے مفت آٹا اسکیم کے تحت پنجاب کے کروڑوں مستحقین کو بڑا ریلیف دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مفت آٹا اسکیم میں ایک پائی کی بھی کرپشن نہیں ہوئی، الزام لگانے والوں کی اپنی ساکھ مجروح ہوئی، آٹا اسکیم پنجاب کی تاریخ کی کامیاب ترین اسکیم رہی۔
صوبائی وزیر نے بتایا کہ اسکیم سے پنجاب کے 3 کروڑ مستحق لوگوں نے فائدہ اٹھایا، آٹا اسکیم کو وفاقی اور پنجاب حکومت نے مل کر فنڈ کیا، پنجاب حکومت پر کوئی کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا، پنجاب حکومت ایک ایک پائی کا حساب دے سکتی ہے۔
بعد ازاں شاہد خاقان عباسی نے مفت آٹے کی تقسیم کے پروگرام میں کرپشن سے متعلق اپنے الزامات کو دوگنا کرتے ہوئے کہا تھا کہ 20 ارب روپے تک کی خرد برد کا ان کا ابتدائی تخمینہ درحقیقت کم ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا تھا کہ وہ اس مبینہ بدعنوانی کا ذمہ دار کسی خاص حکومت کو نہیں بلکہ اس ’نظام‘ کو ٹھہراتے ہیں۔
ڈان نیوز کے شو ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ ان کے بیان کا مطلب کرپشن کو ’سسٹم‘ سے منسوب کرنا تھا، میں گورننگ سسٹم کے بارے میں بات کر رہا تھا جو بہت کرپٹ ہو گیا ہے، میں وہ بات کسی خاص حکومت کے بارے میں نہیں کر تھا، نظام اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم کے نیک نیتی پر مبنی اقدام کو بھی نہیں بخشا گیا۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ خوراک پنجاب میں 30 فیصد سے زائد کرپشن ہے، یہ کرپشن صرف آج کی بات نہیں ہے بلکہ جب سے یہ محکمہ قائم ہوا ہے تب سے اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اس مشاہدے کی بنیاد پر میں نے کہا تھا کہ آٹے کی تقسیم کے پروگرام کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کا تقریباً 25 فیصد کرپشن کی نذر ہوگیا، اس اسکیم کے لیے 84 ارب روپے کی منظوری دی تھی اور میں نے اندازہ لگایا کہ 20 ارب روپے کرپشن کی نذر ہوجائیں گے، ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ 25 فیصد کرپشن کے اعداد و شمار بھی کم ہیں۔
آج اس معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہم نے آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر کے ذریعے اور ساتھ ہی عالمی شہرت کی حامل نجی آڈٹ فرم کے ذریعے فوری آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو بھی ایک درخواست ارسال کردی گئی ہے تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ کیا الزامات سے مشابہت رکھنے والی کوئی حرکت کسی ناپسند عنصر کی جانب سے کی گئی ہے۔