لاہور: (سچ خبریں) لاہور کی احتساب عدالت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو 1986 میں میبنہ غیرقانونی پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے تحریری فیصلہ جاری کیا اور کہا کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے نواز شریف کو ’سیاسی انتقام‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران 2020 میں دائر کیے گئے ریفرنس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے میر شکیل پر جوہر ٹاؤن بلاک ایچ میں 58 کنال زمین مشترکہ بلاک کی شکل میں الاٹ کروانے کا الزام عائد کیا تھا، نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ زمین کی الاٹمنٹ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کی ملی بھگت سے 1986 میں مستثنیٰ پالیسی اور مالیاتی فوائد کے قوانین کے خلاف کی گئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو سماعت پر مسلسل غیرحاضری کی وجہ سے اشتہاری ملزم قرار دیا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ احتساب عدالت کے جج راؤ عبدالجبار نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بری کردیا تھا جبکہ میر شکیل الرحمٰن کو جنوری 2022 میں کیس سے بری کیا گیا تھا۔
آج احتساب عدالت کے جج راؤ عبد الجبار خان نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پلاٹ الاٹمنٹ میں دائر درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔
ڈان ڈاٹ کام کو موصول تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک فرد کو اشتہاری ملزم قرار دینے کے لیے مناسب طریقہ کار نہیں اپنایا گیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 87 کے تحت کسی بھی شخص کو اس وقت اشتہاری ملزم قرار دیا جا سکتا ہے جب عدالت اس طریقہ کار سے ریکارڈ کیے گئے ثبوتوں سے مطمئن ہو۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں ریکارڈ اس بارے میں خاموش ہے کہ ملزم کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے مطلع کرنے کے لیے وارنٹ، اشاعت یا مواد پر مشتمل دستاویزات کس نے جاری کیے تھے، یہ ایک لازمی شرط ہے، بصورت دیگر پوری کارروائی غیر قانونی ہو جائے گی۔
حکم نامے میں ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہواکہ اعلان کے اجراء کے لیے شرائط موجود تھیں، خاص طور پر یہ کہ کارروائی اس وقت شروع ہو جانی چاہیے جب ملزم ملک سے باہر نہیں گیا ہو اور وہ قانون کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے روپوش ہو۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر ملزم کسی نوٹس سے قبل ملک چھوڑ کر چلا جائے تو عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلبی نوٹس، وارنٹ جاری کرنا یا دیگر اقدامات کیے جائیں تو پوری کارروائی غیرقانونی ہوجاتی ہے۔
معزز جج نے تحریری فیصلے میں کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کی طرف سے طے کیے گئے پیرامیٹرس کی روشنی میں نہیں دیا گیا۔
احتساب عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس سے بری کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا.
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو سابق حکومت کے کہنے پر نواز شریف کا سیاسی کیریر تباہ کرنے کے لیے ریفرنس تیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔
مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف تین بار پاکستان کے منتخب وزیراعظم رہے ہیں، عدالت نواز شریف کو بری کرنے کا حکم دیتی ہے۔
عدالتی معاون کے مطابق مرکزی ملزمان کو جو ریلیف دیا گیا وہی ریلیف نواز شریف کو ملنا چاہیے تھا، قانون بڑا واضح ہے کہ مرکزی ملزمان کے ساتھ اشتہاری ملزم بھی اسی سزا یا ریلیف کا مستحق ہوتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کو بھی وہی ریلیف ملنا چاہیے تھا جو دیگر ملزمان کو دیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب اور روینیو بورڈ نواز شریف اور ان کی جائیدادوں میں حصہ داروں کی جائیدادیں ڈی فریز کرنے کا حکم دیتی ہے، عدالتی فیصلے کی کاپی چیرمین نیب سمیت دیگر کو ارسال کی جائے۔
تحریری فیصلے کے مطابق عدالتی معاون نے سوال اٹھایا کہ نواز شریف کو اشتہاری کی کاروائی کے لیے نوٹسز کی تعمیل کے لیے جانے والے تعمیل کنندہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ عدالتی معاون کے مطابق نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کاروائی کے لیے مکمل طریقہ کار اپنایا نہیں گیا۔
نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کاروائی قانون کے مطابق نہیں ہے، عدالت میں نواز شریف کی جائیدادوں کے شئیر ہولڈرز نے جائیدادیں منجمد کرنے کے خلاف اعتراضات دائر کیے تھے۔
فاضل جج نے نیب اور ریونیو حکام کو ہدایت کی کہ نواز شریف اور درخواست گزاروں کی جائیدادیں بحال کی جائیں۔